توقع کی جارہی ہے کہ بین الاقوامی فوج داری عدالت 2014 میں غزہ کے خلاف جارحیت کے دوران فلسطینی عوام کے خلاف جنگی جرائم کے شبے میں پراسیکیوٹر بینسوڈا کی درخواست کو قبول کر کے قابض اسرائیلی کے فوجی، سیاسی لیڈروں اور دیگر جنگی جرائم کے خلاف تحقیقات کا جلد آغاز کرے گی۔
ہیگ کی فوج داری کورٹ عن قریب ہی فلسطین میں اسرائیل کے جرائم کی تحقیقات کے کھولنے کے فیصلے کے ساتھ ہی عبرانی اخبار "ہارٹز” نے انکشاف کیا کہ "اسرائیل” ایک خفیہ فہرست تیار کر رہا ہے جس میں سیکڑوں اہلکار شامل ہیں جن پر ہیگ میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ اس فہرست میں ان فوجی اور سیاسی لیڈروں کو شامل کیا جا رہا ہے جو فلسطینیوں کے خلاف سنگین نوعیت کے جنگی جرائم میں ملوث رہے ہیں۔
جمعرات کوشائع کردہ اخباری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوج اور سیکیورٹی سروسز کے فیصلہ سازوں اور عہدیداروں کی ایک خفیہ فہرست جنہیں بیرون ملک گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ اسرائیل کو خدشہ ہے کہ اگر ہیگ میں بین الاقوامی فوجداری عدالت جنگی جرائم کے شبے میں تحقیقات کھولنے پر راضی ہوگئی تو ان کے عہدیداروں کے خلاف عالمی سطح پر آمد ورفت مشکل ہوسکتی ہے۔
اخبار کے مطابق اس فہرست میں فی الحال 200 سے 300 افراد شامل ہیں ، اور کچھ دیگر نام ابھی مزید شامل کیے جاسکتے ہیں۔ ان میں فوج کے جونیر افسر اور فلسطینیوں کے خلاف جرائم میں ملوث صہیونی عناصر شامل ہیں۔
اسرائیل کو سنگین تشویش
اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے یورپی امور میں ماہر محقق حسام شاکر نے کہا کہ اسرائیل میں جنگی مجرموں کی فہرست تیار کرنے کے بارے میں جو بات کی جارہی ہے اس سے اس کے رہ نماؤں ، افسران اور عہدیداروں کے بین الاقوامی مجرمانہ مقدمات چلانے سے متعلق کسی اقدام کے بارے میں قابض ریاست کی شدید تشویش کی تصدیق ہوتی ہے۔
شاکر نے "فلسطینی انفارمیشن سینٹر” کو ایک خصوصی بیان میں زور دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملے سے یہ تصدیق ہوتی ہے کہ صہیونی ریاست عالمی فوج داری عدالت کی طرف سے ممکنہ قانونی کارروائی کی روک تھام اور اپنے افسران اور عہدیداروں کو بچانے کے لیے بہت زیادہ مصروف ہے۔
انہوں نے کہا کہ واضح ہے کہ اسرئیل اپنے لیڈروں کا پیچھا کرنے کے ہر ممکنہ امکان کے اشارے پر انتہائی سنجیدگی اور احتیاط برت رہا ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ قابض ریاست میں ایک ایسا نظام موجود ہے جو مقدمے کی سماعت کے کسی بھی مواقع کو روکنے کی کوشش کرتا ہے۔اس کے بعد کچھ افسران اور فوجیوں کے لیے جنگی جرائم میں واضح طور پر ملوث ہونے کے شبے کے بعد ان کے بیرون ملک سفر سے انہیں روکا جاسکتا ہے۔
حسام شاکر نے کہا کہ جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے اور انہیں ہدایت دینے کے سلسلے میں اپنی فوج اور حکومت کے طرز عمل کی نوعیت سے متعلق معاملات میں صہیونی ریاست پوری طرح واقف ہے۔ چاہے وہ فلسطینی سرزمین پر قابض فوج کے ذریعہ کی جانے والی جارحانہ فوجی مہمات یا روز مرہ کے جرائم ہوں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل ہرصورت میں عالمی فوج داری عدالت پر اپنے عہدیداروں کے خلاف جرائم کے الزامات کی تحقیقات شروع کرنے کرنے سے روکنےکے لیے دبائو ڈالے گا۔
دوسری طرف فلسطینیوں میں عالمی فوج داری عدالت امید کی ایک نئی کرن ہے۔ اگر ہیگ میں قائم عالمی عدالت جرائم میں ملوث اسرائیلیوں کے خلاف تحقیقات کھولتی ہے تو اس سے عالمی سطح پر صہیونی ریاست کے جرائم کو بے نقاب کرنے کا موقع ملے گا اور صہیونی ریاست دبائو میں آسکتی ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اس معاملے میں ایک اور جہت ہے۔ وہ یہ ہے کہ اسرائیل اپنے سینیر عہدیداروں اور افسروں کے لیے حفاظتی جال مہیا کرنا چاہتا ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ اس سلسلے میں صہیونی ریاست کے پاس مواقع محدود ہیں۔ کیونکہ محض سیاسی اور عسکری شخصیات کی 200 سے 300 کی فہرست کا اجراء ہی اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ معاملہ اس کے لئے دن بدن مشکل ہوتا جارہا ہے۔ ایسی کسی قانونی چاری جوئی کی صورت میں ہرملک اس طرح کی تیاریاں کرتی ہے۔ بالخصوص ایسے ممالک جن پر صرف الزام نہ ہو بلکہ وہ کھلے عام جنگی جرائم کے مرتکب پاگئے ہوں۔ اسرائیل شاید ایسے ممالک میں سر فہرست ہے۔