جمعرات 13 جنوری 2020ء کا دن بالعموم پورے عالم عرب اور عالم اسلام بالخصوص اہل فلسطین کے لیے ایک مایوس اور تاریک ترین دن قرار دیا جائے گا۔ اس روز سیاہ کے موقعے پر امریکا کی مشرق وسطیٰ کے لیے ناجائز اولاد یعنی صہیونی ریاست کی خلیجی ریاست متحدہ عرب امارات کے ساتھ دوستی کا علی الاعلان اظہار کیا گیا۔ امارات کی بادشاہت نے اپنا اقتدار بچانے کے لیے امریکیوں اور صہیونیوں کا سہارا لینے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اماراتی قیادت کے اس غیر منصفانہ اور فلسطین دشمن پرنہ صرف اہل فلسطین بلکہ پوری دنیا کے زندہ ضمیر سراپا احتجاج ہیں۔ عرب اقوام میں بھی اس فیصلے پر سخت عوامی رد عمل سامنے آیا ہے۔ امارات کے قریبی خلیجی ملکوں کی حکمران قیادت اس پر خاموش ہے مگر حقیقی معنوں میں امارات کے اسرائیل سے معاہدے پر خوش دکھائی دیتی ہے۔ البتہ جہاں تک عرب اقوام کا تعلق ہے تو وہ متحدہ عرب امارات کے اس فیصلے پر آگ پر لوٹ رہے ہیں۔
جمعرات کی شام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ‘ٹویٹر’ پر پوسٹ کردہ ایک ٹیو میں کہا کہ ہمارے دو عظیم دوستوں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان باہمی سطح پر غیرمعمولی پیش رفت سامنے آئی ہے۔ یہ پیش رفت دونوں ملکوں کے درمیان باقاعدہ اعلانیہ تعلقات کے قیام کا اعلان ہے۔
اس کے ساتھ ہی اماراتی ولی عہد محمد بن زاید نے ایک بیان میں کہا کہ انہوںنے فلسطینی اراضی کا اسرائیل سےالحاق روکنے کے لیے صہیونی ریاست کے ساتھ باہمی تعاون کا معاہدہ کیا ہے۔ شیخ زاید نے کہا کہ انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو سے ٹیلیفون پر گفتگو کی ہے۔
اماراتی ولی عہد نے کہا کہ امارات اور اسرائیل دونوں دو طرفہ تعلقات کے آغاز کے لیے ایک روڈ میپ کی تیاری پر متفق ہوگئے ہیں۔
اسرائیل اور امارات کے درمیان دوستی کے اعلان کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر اس اقدام پر سخت غم وغصے کا اظہار شروع ہوگیا۔ فلسطین اور عرب ممالک کی نمائندہ شخصیات اور تجزیہ نگاروںنے اس فیصلے کے مضمرات پر روشنی ڈالتے ہوئے باور کرایا کہ اسرائیل کے ساتھ امارات کی دوستی عرب دنیا کے ماتھے پر بدنما داغ بن کر ابھرے گا۔
تجزیہ نگاروں نے اسرائیل ۔ امارات تعلقات کے اعلان پراپنے رد عمل میں اسے فلسطینی قوم، قضیہ فلسطین، فلسطینیوں کی قربانیوں کے ساتھ خیانت قرار دیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امارات نے ایک فیصلہ کن اور نازک موڑ پر صہیونی ریاست کے ساتھ دوستی کا اعلان کیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب اسرائیل غرب اردن پراپنے قبضے کی تیاری کررہا ہے۔ مقبوضہ بیت المقدس کو ہتھیانے کا پہلے ہی منصوبہ بنا چکا ہے۔ مزید فلسطینی اراضی کو ضم کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔
تجزیہ نگار رضوان الاخرس نے کہا کہ امارات کا فیصلہ مسلم اور عرم اقوام کے ماتھے پر بدنامی کا ایک داغ ہے۔ امارات نے فلسطینی قوم کے حقوق، مقدسات اور فراموش کی جانے والی امنگوں کی قیمت پر ظالم اور مجرم صہیونیوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔
هذا اليوم يعتبر وصمة عار في جبين الأمة الإسلامية والعربية، هذه المصافحة مع المجرمين والمعتدين الصهاينة تجري على حساب دمنا وأرضنا وحقنا وقدسنا وأحلامنا المنسية.#الإمارات #التطبيع
رضوان الأخرس (@rdooan) August 13 2020
فلسطینی تجزیہ نگار ایاد القرا نے فیس بک پر لکھا کہ امارات نے خود کو صہیونی ریاست کی گودل میںڈال دیا۔ اگرچہ امارات کا یہ اقدام کوئی نئی اور حیران بات نہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان غیراعلانیہ تعلقات ایک عرصے سے چلے آ رہے تھے۔
#محمد_بن_زايد: في اتصالي الهاتفي اليوم مع الرئيس الأمريكي #ترامب ورئيس الوزراء الإسرائيلي #نتنياهو، تم الاتفاق على إيقاف ضم #إسرائيل للأراضي الفلسطينية. كما اتفقت #الإمارات وإسرائيل على وضع خارطة طريق نحو تدشين التعاون المشترك وصولاً إلى علاقات ثنائية. #الامارات_رساله_سلام#وام pic.twitter.com/l1szcAdLha
وكالة أنباء الإمارات (@wamnews) August 13 2020
تجزیہ نگار ذوالفقار سویرجو کا کہنا ہے کہ عرب کا سیاسی نظام توت کے پتے کی طرف گرچکا اور اب یہ درخت مکمل طور پر برہنہ ہوچکا ہے اور اس کے گرے پتوں پر تل ابیب کے ننگے پائوں چلنے والے چلیں گے۔
فلسطینی سماجی کارکن رامی عبدہ کا کہنا ہے کہ امارات اور اسرائیل میں دوستی نئی بات نہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب اسے اعلانیہ کردیا گیا۔ امریکی صدر ٹرمپ اسے اپنی ایک عالمی کامیاب سفارت کارے کے ایک پتے کے طور پر استعمال کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی قوم کو ایسے تمام دوست نما دشمنوں کے قریب جانے سے باز رہنا چاہیے جو دوستی کی آڑ میں دشمن کےساتھ ہاتھ ملا کر پیٹھ میں خنجر گھومپ دیتے ہیں۔ امارات نے یہی کچھ کیا۔ ابو ظبی فلسطینیوں کے ساتھ دوستی کی بات کرتا ہے مگر اسرائیل کے دوستی کرکے اس نے فلسطینی قوم کے ساتھ مجرمانہ خیانت برتی ہے۔
بسام الصالحی کا کہنا ہے کہ امارات کا فیصلہ فلسطینی قوم کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے میں مترادف اور فلسطینیوںکے ساتھ سب سے بڑا فراڈ ہے۔
احمد جرار کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ امارات کی دوستی فلسطینیوں کے زخموں پرنمک پاشی کے مترادف ہے۔ تاریخ اسرائیل جیسے سفاک دشمنوں اور غاصبوں کے ساتھ دوستی کرنے والوں کو کوڑے دان میں ڈال دے گی۔
الاتفاق بين الامارات والاحتلال الاسرائيلي هو #اتفاق_العار وهو طعنة في خاصرة الشعب الفلسطيني والشعوب العربية الحرة والتاريخ سيلعن كل من يطبع ويوقع. pic.twitter.com/pn4H5LkXE8
أحمد جرار (@j_jararr) August 13 2020
صحافی عمار قدیح کا کہنا ہے کہ ہمارا خون ، ہمارے زخم، ہماری قربانیاں امریکا اور اسرائیل کے چیلوں نے سستے داموں فروخت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اس کی واضحمثال امارات کا فیصلہ ہے۔ امارات کی قیادت نے فلسطینی قوم کے حقوق کی قیمت پر صہیونی دشمن سے دوستی کا ہاتھ ملایا ہے۔
دماؤنا وجراحنا وتضحياتنا بيعت برخيص الثمن من قبل خدام الامريكان واسرائيل ، قادة الامارات #اتفاق_العار
Ammar| من غزة (@AmmarQudeh) August 13 2020
ناجی شکری کا کہنا ہے کہ اسرائیل سے دوستی کرکے فلسطینی قوم کی قربانیوںکی سودے بازے کرنے والے، شہدا کی قربانیوں کو فراموش کرنے دشمن کے جرائم پر پردہ نہیں ڈال سکتے۔
مهما حاول المطبعون مع الاحتلال تجميل خيانتهم لتضحيات آلاف الشهداء والجرحى وعشرات آلاف الضحايا، فإن سوأتهم ستبقى ظاهرة وعورتهم سافرة.
الشعب الفلسطيني كان ينتظر دعما لصموده وتعزيزا لمقاومته وليس تحالفا مع العدو الإسرائيلي المجرم.
كيف لهؤلاء أن يكون من جلدتنا وعروبتنا!؟#اتفاق_العارد. ناجي شكري (@Naji_Shukri) August 13 2020
عراقی صحافی عثمان المختار نے کہا کہ میں ذاتی طور پر امارات کے اعلان پر حیران نہیں ہوا۔ ابو ظبی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات ماضی میں بھی مختلف شکلوں میں دیکھے گئے ہیں۔ مغربی میڈیا سے باخبر رہنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ امارات اور اسرائیل میں کس حد تک دوستانہ مراسم پہلے ہی قائم ہوچکے ہیں۔ مگر مجھے حیرت یہ ہوئی ہے کہ امارات نے اسرائیل سے اعلانیہ دوستی کوغرب اردن کے علاقوں کے اسرائیل سے الحاق کے پیچھے چھپانے کی مذموم کوشش کی ہے۔
شخصيا لم اتفاجئ لأن العلاقات بين أبو ظبي والكيان الصهيوني معروفة منذ سنوات ومن يتابع الإعلام الغربي يعرف ذلك جيدا
أخس ما بالإعلان هو حشر قضية أراضي الضفة لتسويق ذلك داخليا ولتستمر المتاجرة
هي أشياء لا تشترى
عثمان المختار (@othmanmhmmadr) August 13 2020
قطری دانشور جابر المری کا کہنا ہے کہ امارات کی اسرائیل سے دوستی خلیجی ممالک، عرب دنیا اور عالم اسلام کے لیے ‘یوم سیاہ’ ہے۔
يوم أسود في تاريخ الخليج والعرب والمسلمين
جابر بن ناصر المري (@JnAlMarri) August 13 2020
کویتی خاتون دانشور ھیا الشطی کا کہنا ہے کہ اس دور کے زندوں اور مردوں پر لعنت ہو۔ اسرائیل سے دوستی کرنے اور اس پر خاموش رہنے والوں پر تا قیامت پھٹکار برستی رہے۔
اللعنة ! عليهم أحياء وأموات ! اللعنة مع كل نفس إلى يوم الدين !
هـيــاء الشـطّي (@hayaalshatti) August 13 2020