عرب ممالک میں بعض کی حکومتوں نے کئی سال قبل صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کے قیام کے لیے کام شروع کردیا تھا۔ اس سلسلے میں پہلا اقدام سنہ 1978ء میں مصر اور اسرائیل کے درمیان کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی شکل میں سامنے آیا۔ اس وقت سے آج تک کئی دوسرے ممالک بھی در پردہ صہیونی ریاست کےساتھ دوستی کے لیے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہے مگر ان کی عوام نے ہرگام ان کی یہ کوششیں ناکام بنائیں۔
بعض ممالک نے متحدہ عرب امارات کی طرف پہلے پہلے صہیونی ریاست سے پس چلمن تعلقات قائم رکھے اور آخر کار صہیونی ریاست کو کھل کر تسلیم بھی کرلیا۔ اگست 2020ء کے وسط میں متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی کہا کہ ابو ظبی جلد ہی تل ابیب کےساتھ براہ راست سفارتی تعلقات قائم کرے گا۔ امارات کا اسرائیل کے ساتھ سمجھوتا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰکے لیے نام نہاد امن منصوبے ‘سنچری ڈیل’ کا حصہ ہے۔ اس منصوبے کے تحت عرب ممالک کو اسرائیل کےساتھ تعلقات استوار کرنے کے لیے آگے بڑھنے کی تلقین کی گئی ہے۔
امریکا اور اسرائیل دونوں طویل عرصے سے عرب ممالک کے حکمرانوں کو صہیونی ریاست کےسامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں مگر عرب اور مسلمان اقوام کی طرف سے کلی طور پر اسرائیل سے تعلقات کو مسترد کیے جانے کے نتیجے میں صہیونی ریاست اور عرب ممالک کے درمیان دوستی کی گاڑی زیادہ تیز رفتاری کےساتھ آگے نہیں بڑھ سکی۔ جب بھی ایسا کوئی موقع آیا تو مسلمان عوام اور عرب عوام اٹھ کھڑےہوئے اور انہوں نے فلسطینی ‘کاز’ فلسطین میںموجود مقدسات اور مظلوم فلسطینی قوم کے حقوق کی سودے بازی کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور اس کے خلاف مزاحمت شروع کردی۔
تاریخی ناکامی
اسرائیلی فوج نہ صرف فلسطینی عوام کے خون سے اپنے ہاتھ رنگین کررہی ہے بلکہ دہشت گرد صہیونی فوجیوں کے ہاتھوں کئی عرب ممالک کے ہزاروں سپاہی اور افسر بے دردی کے ساتھ شہید کیےگئے۔ کئی عرب دانشوروں اور سائنسدانوں کو قاتلانہ حملوں میں قتل کیا گیا مگر دوستی کا صابن صہیونی دشمن کے ان جرائم کے خونی رنگ صاف نہیں کرسکتا۔ چاہے عرب حکمران اسرائیل سے دوستی کو خطے میں خوشحالی، ترقی اور خلیج کے خلاف ایران کے بڑھتے قدم روکنے کا نام ہی کیوں نہ دیں۔
اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان ہونے والی جنگوں میں شہید ہونے والوں کے ہزاروں خاندانوں کےزخم آج بھی نہیں بھر سکے ہیں۔ سنہ 1948ء، 1956ء، 1973ء،1967ء، 1982ء، 2008ء اور 2014ء کی فلسطینیوں اور عربوں کے خلاف مسلط کی گئی صہیونی ریاست کی جنگوں سے آج بھی لوگ متاثر ہیں۔ عرب دارالحکومتوں میں اسرائیلی فوج کی آئے روز جاری دہشت گردی کےساتھ ساتھ غرب اردن اور مقبوضہ بیت المقدس کے فلسطینی عوام آج بھی سنگین نوعیت کے جرائم کا سامنا کررہےہیں۔
دفاعی امور کے تجزیہ نگار محمد لافی نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ سنہ 1978ء میں طے پایا مگر یہ معاہدہ آج تک مصری عوام کو اسرائیل کے ساتھ دوستی پرقائل نہیں کرسکا ہے۔ مصری عوام آج بھی اپنے ہزاروں شہدا کو یاد کرتے ہیں اور اسرائیلی ریاست کی دہشت گردی کی وجہ سے اس کے خلاف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مصر کی سب سے بڑی دینی درسگاہ جامعہ الازھر اور دیگر تعلیمی ادارے اسرائیل کو تسلیم نہیں کر پائے۔ حالانکہ مصری حکومتوں کے صہیونی ریاست کےساتھ باقاعدہ تعلقات جاری ہیں۔ یہاں تک کہ مصر کے شوبز کے شعبے سے وابستہ ادارکار بھی فلسطینی قوم پر صہیونی ریاست کی جارحیت کے خلاف سراپا احتجاج رہتے ہیں۔
البتہ خلیجی ملکوں کے بعض حکومت نواز چینلوں کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ دوستی کی ترویج کے لیے ڈرامے نشر کرنا شروع کیے ہیں۔ ان میں رواں سال نشر کیے جانے والے ‘ام ھارون’ مصر کے ‘حارہ الیہود اور سعودی عرب کے’ایگزیٹ 7’ جیسے ڈراموں کا مقصد بھی رائے عامہ کو اسرائیل کے لیے تیار کرنے کی کوشش تھی۔ جب کہ اس کے مقابلے میں صقر فلسطین، دموع فی عیون وقحہ، رافت الھجان، ، ایجنٹ 1001 اور الزیبق جیسی فلموں میں عرب ۔ اسرائیل کشمکش کو اجاگر کیا گیا اور انہیں عوامی سطح پر بھرپور پذیرائی بھی حاصل ہوئی ہے۔
فلسطینی اراضی پر صہیونی ریاست کا غاصبانہ قبضہ اور اس کی حمایت عرب حکومتوں کے اسرائیل دوستی کے معاہدوں کا حصہ ہے تاہم یہ سب صرف حکومتی سطح پر ہے جب کہ عرب اقوام اس کی کھل کر مخالفت کرچکے ہیں۔
فلسطین میں سرکاری اور عوامی سطح پر صہیونی ریاست کےساتھ عرب ملکوں کی دوستی کو مسترد کردیا گیا ہے۔ اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ اور فلسطینی اتھارٹی دونوں کا امارات کے اسرائیل کے ساتھ دوستی کے اعلان پر ایک جیسا رد عمل سامنے آیا اور دونوں نے اسے فلسطینی قوم کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف قرار دیا۔