جمعه 15/نوامبر/2024

دوران قید فلسطینیوں نے مجھ سے مہمان جیسا برتاؤ کیا:سابق اسرائیلی قیدی

اتوار 28-جولائی-2024

غزہ میں فلسطینی مزاحمتکے ہاں قید رہنےوالی ایک اسرائیلی خاتون لیئات اتزیلی نے اپنے حراست کے عرصے کےبارے میں بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس عرصے میں ان کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کیاگیا۔ اسے کھانا فراہم کیا گیا اور اسے کسی قسم کے تشدد کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔ اسنے قیدیوں کے خلاف تشدد کے بارے میں قابض اسرائیلی ریاست کے جھوٹے پروپیگنڈے کینفی کی ہے۔

کیبوٹیز نیر اوز سے پکڑی  گئی قیدی اتزیلی نے عبرانی اخبار ’ہارٹز‘ کو اپنےاغوا کاروں کے ساتھ گذارے گئے ہفتوں کی تفصیلات بتائی، جنہوں نے اس کی قید کے دوراناسے دیکھ بھال اور تحفظ فراہم کیا اور ان کے درمیان دوستانہ گفتگو ہوئی۔

اس نے کہاکہ جب اسے پکڑاگیا تو فلسطینی مزاحمت کاروں نے اس سے کہا: "گھبراؤ نہیں، ہم تمہیں نقصان نہیںپہنچائیں گے”۔ اس کے ساتھ قید کے دوران اچھا سلوک کیا گیا اور اس کے ساتھ جسمانیتشد یا سخت رویہ نہیں اپنایا گیا۔

اسرائیلی قیدی جسے نومبر میں ایک ہفتے کی جنگ بندی کے دوران رہا کیا گیا تھا بتاتی ہے کہ جب اس نے بندوق برداروںکا مقابلہ کیا تو اسے ان سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ انہوں نے مجھے کپڑے پہننے اور منظمکرنے کا وقت دیا، اور انہوں نے میری عینکتلاش کرنے میں میری مدد بھی کی”۔

اس نے مزید کہاکہ "میںخان یونس کے ایک گھر میں پہنچی جو ایک اغوا کارکا تھا۔ وہاں ایک خاتون نے میرا استقبال کیا۔ میں رو رہیتھی اور اس نے مجھے گلے لگایا اور کہا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا”۔

اس نے کہا کہ وہ ہر وقت روتیرہتی۔ یہاں تک کہ مزاحمتی ارکان اس کے بارے میں فکر مند تھے اور اس کی حفاظت کرنے،اسے کھانے پینے کی اشیاء فراہم کرنے اور اسے نہانے اور کپڑے دھونے کی اجازت دینے کاعہد کیا۔

اس نے بتایا کہ جس گھر میںوہ رہتی تھی اس میں کوئی گارڈ نہیں تھا، بلکہ وہ اس کے لیے بالکل کھلا تھا۔ وہ اس کےاندر آزادانہ گھومتی تھی۔ وہ ہر وقت اس سے پوچھتے تھے کہ کیا اسے کسی چیز کی ضرورتہے اور کیا وہ کمرے میں اکیلی رہنا چاہتی ہے۔

سابق اسرائیلی قیدی اتزیلیکا کہنا ہے کہ 8 اکتوبر کو اسے ایک اپارٹمنٹ میں منتقل کیا گیا، جہاں اس کی ملاقاتتھائی کارکنوں سے ہوئی اور ایک اور قیدی الانا گریٹزوسکی سے ملاقات ہوئی۔

وہ بتاتی ہیں کہ ان کے ساتھرہنے سے سکون کا ماحول پیدا ہوا جس کی وجہ سے وہ اپنے آپس میں اور حتیٰ کہ مزاحمتیارکان کے ساتھ جو ان کی حفاظت کر رہے تھے بات چیت اور خیالات کا تبادلہ کرتے تھے۔اسسے ان کے درمیان ایک قسم کا اعتماد پیدا کیا۔

اس نے کہا کہ ان کے محافظوںنے انہیں ہر روز الجزیرہ دیکھنے کی اجازت دی۔ اس کےنتیجے میں وہ 7 اکتوبر کو ہونے والےواقعات کے بارے میں کچھ جاننے کے قابل ہو گئے۔

اتزیلی نے اپنے محافظوں کےبارے میں بتایا کہ ان میں سے ایک وکیل اور دوسرا استاد تھا۔ وہ دونوں شادی شدہ تھےاور ہر ایک کا ایک بچہ تھا۔

اس نےکہا کہ وہ ان سے بچوں،شوہروں، والدین، روزمرہ کی زندگی، رسوم و رواج اور کھانے کے بارے میں بات کرتی۔ گارڈزمیں سے ایک کو کھانا پکانا بہت پسند تھا، اس لیے انھوں نے اسے ہر طرح کے کھانے بیانکیے تھے۔ جن میں مقلوبہ، بھری ہوئی سبزیاں اور ہر قسم کے سلاد وغیرہ شامل تھے۔

مردوں کے زیر حراست خاتونہونے کے خوف کے بارے میں اس نے کہا کہ وہ "پہلے تو بہت مشکوک تھی اور ڈرتی تھیکہ کچھ ہو جائے گا یا وہ جنسی زیادتی کا شکار ہو جائے گی، لیکن پھر اسے یقین ہو گیاکہ سب کچھ ٹھیک ہے، اور اس کےمحافظ حدود کی پابندی کر رہے تھے”۔

سابق قیدی کا کہنا ہے کہاس کے گارڈز اس بات پر حیران رہ گئے کہ وہ سبزی خور ہے اور اس سے پوچھا ” تم کیاکھاتی ہو؟” اس نے جواب دیا کہ اسے پیزا بہت پسند ہے۔ کوئی اس کی موٹر سائیکل پرگیا اور خان یونس کے "کرسپی پیزا” سے پیزا لے آیا۔ اس کے بعد اس نے پھل اورسبزیاں منگوائیں اور وہ انہیں لے آئے۔انہوں نے ہمارے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا جس سےمجموعی طور پر اس مدت سے گذرنا ممکن ہوا”۔

اتزیلی نے کہا کہ اسے سرنگوںمیں حراست میں نہیں لیا گیا۔ مناسب خوراک ملی اور اسے جسمانی تشدد یا سخت سلوک کا نشانہبنایا گیا۔ اس نے زور دیا کہ وہ بہت خوش قسمت تھیں۔

انہوں نے وضاحت کی کہ یہمذموم بیان کہ پوری غزہ کی پٹی اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) کے کنٹرول میں ہے حقیقتاًغلط ہے۔ ہمارے پاس ایک خوفناک حکومت ہے اور ہمارے پاس ایک وزیر اعظم (بنجمن نیتن یاہو)ہے جو اس قابل نہیں ہے۔

اس نے کہا کہ "میں غزہکے بارے میں بہت کچھ سوچتی ہوں اور مجھے مصیبت میں مبتلا لوگوں کے لیے ہمدردی محسوسہوتی ہے” اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ یہ جنگ صرف ذاتی مفادات کی تکمیل کرتی ہے۔یہواضح ہے کہ اسرائیلی حکومت نے اپنی سیاسی بقا کے لیے قربانیاں دی ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی