جمعه 15/نوامبر/2024

مکانات مسماری کے خلاف القدس کے باشندوں‌کے ڈٹ جانے کا جرات مندانہ اقدام

ہفتہ 29-اگست-2020

قابض حکام مقبوضہ بیت المقدس کے عوام اور ان کی املاک کے خلاف بھرپور اور منظم مہم چلا رہے ہیں۔ مقدس شہر کو اپنے اصلی باشندوں سے خالی کرنے اور انہیں یہودی آباد کاروں کی جگہ بنانے کی کوشش میں  شہر اصل تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے۔ القدس کو یہودیانے اور اس کی خصوصی اسلامی اورعرب شناخت مٹا کر اسے یہودیوں کے ورثے میں تبدیل کرنے کی منظم پورے زور وشور سے جاری ہے۔

قابض حکومت القدس اور اس میں مقیم فلسطینیوں کی گرفتاری کی مہمات ، شہر بدری اور ہراساں کرنے سے آگے بڑھ کراب فلسطینیوں‌کی املاک کی بھی دشمن بن گئی ہے۔ مکانات کی مسماری اور انہدام کو فعال بنانے کے لیے پوری صہیونی ریاستی مشینری متحرک ہے۔

مکانات اور املاک مسمار کرنے ،فلسطینی آبادی کو بے گھر کرنے ، گرفتاریاں ، ہراساں کرنے اور جلاوطنی کی تمام پالیسیوں کے باوجود  القدس کے شہری اپنی سرزمین میں استقامت اور اپنے اصولوں پر عمل پیرا ہونے پر مصر ہیں۔ اسرائیلی مظالم کے نتیجے میں مقدس شہر سے فلسطینیوں‌کی محبت اور پیار میں اور اضافہ ہوتا ہے اور فلسطینی قابض ریاست کے  تمام جرائم اور تکبر کو مسترد کرتے ہیں۔

القدس کے مکانات کو منہدم کرنے کے ساتھ ساتھ فلسطینی شہریوں پر پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں تاکہ فلسطینی آبادی خود ہی شہر چھوڑ دے۔ یہاں تک فلسطینی شہریوں سے ان کے القدس کے شناختی کارڈ تک لیے جا رہے ہیں۔

اس طرح کے اقدامات کا مقصد  فلسطینی سرزمین پر یہودیوں‌کو غلبہ فراہم کرنے اور فلسطینی آبادی پر عرصہ حیات تنگ کرنا ہے۔ اس مذموم مقصد کے لیے  یا تو خود ساختہ اور توہین آمیز رویہ اپنا یاجاتا ہے اور ساتھ ہی ان کے مکانات کو مسمار کرنے کی پالیسی کا سہارا لیا جاتا ہے  یا قابض میونسپلٹی شہر میں یہودی آباد کاروں کے لیے ہزاروں کی تعداد میں مکانات تعمیر کررہی ہے۔

القدس  کے تین خاندانوں نے مقبوضہ شہر میں اپنے گھروں کو خود توڑنے کے احکامات کی تعمیل کرنے سے انکار کردیا۔ قصبہ سلوان کے عوام کی طرف سے شروع کی گئی ایک مہم کے تحت انہوں نے القدس کے عوام سے مطالبہ کیا کہ وہ ثابت قدم رہیں اور گھروں کو مسمار کرنے سے انکار کردیں۔ اسرائیلی انتظامیہ جن فلسطینیوں‌کے گھروں کو مسمار کرنے کی کوشش کرے تو اس کا مقابلہ کریں اور اپنے گھروں کو خالی نہ کریں۔

مقبوضہ بیت المقدس میں جبل مکبر میں رہنے والے عبدہ خاندان  نے  صہیونی حکام کی طرف سے مکان مسمار کرنے کا آرڈر مسترد کردیا۔ قابض پولیس نے ایک نوٹس جاری کیا تھا جس میں عبدہ خاندان سے کہا گیا تھا کہ ان کا مکان غیرقانونی ہے جسے مسمار کرنا ہوگا۔ مکان کو یا تو مکین خود مسمار کریں یا مسماری کے لیے جرمانہ ادا کریں۔

فلسطینی کنبے نے کہا کہ مکانات کو منہدم کرنا ایک ایسا جرم ہے جو وہ اپنے خلاف نہیں کرسکتےاگر قابض اس پر اصرار کرتے ہیں تو اس مجرمانہ عمل کو پوری دنیا کے سامنے آنا چاہیے۔ تاکہ دنیا دیکھے کہ القدس کے فلسطینیوں‌پر عرصہ حیات کیوں تنگ کردیا گیا ہے۔

 مقبوضہ بیت المقدس  کے العیسویہ میں علیان خاندان نے اپنا گھرمنہدم کرنے کے فیصلے کو مسترد کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنا گھر مسمار نہیں کریں گے اگر اسرائیلی فوج اور پولیس ان کا مکان مسمار کرتی ہے تو وہ یہ جگہ نہیں چھوڑیں گے۔ کیونکہ اسرائیل کا اصل مقصد مکان کی مسماری نہیں بلکہ فلسطینیوں کو القدس سے نکال باہر کرنا ہے۔

انہوں نے استفسار کیا کہ  یہودی آباد کاروں کو یہ حق کیوں حاصل ہے کہ وہ بستیوں کو تعمیر کریں جبکہ ہم تعمیر کو روکنے اور انکار کرنے اور جھوٹے الزامات کے سبب اپنے گھروں کو مسمار کیوں کریں؟۔ اس سوعال کا جواب صرف یہ ہے کہ ہمیں  ایک مجرم نسل پرست حکومت کا سامنا ہے۔

القدس  کے  عطاء جعفر نے بتایا کہ اس کا تعلق  جبل المکبر سے ہے۔ اسرائیل نے اسے  30 اگست تک اپنے گھر کو مسمار کرنے کی ڈیڈ لائن دی ہے۔ میں نے قابض بلدیہ کے بھاری اخراجات ادا کرنے سے بچنے کے لیے اپنا گھر منہدم کرنے کی کوشش کی لیکن میرے ضمیر نے مجھے اپنے ہاتھ سے اپنا مکان مسمار کرنے سے روک دیا۔

جعفر نے پوچھا کہ میرا بچہ اپنے ہاتھوں سے اپنے گھر کو مسمار کرنے کے منظر کو کیسے سمجھ سکتا ہے؟! مستقبل میں میں کیا جواز پیش کروں گا؟ میں اپنے بچے کو کیسے سمجھاؤں گا کہ یہ معاملہ میرے اختیار سے باہر ہے؟”

انہوں نے  کہا کہ میں 10 سالوں سے قابض انتظامیہ کے مکان کو منہدم کرنے کے خطرے کی وجہ سے تباہ کن نفسیاتی حالت میں زندگی گزار رہا ہوں۔ ہم حالیہ عرصے میں نیند سے محروم ہوگئے ہیں کیونکہ یہ توقع کی جاتی ہے کہ کسی بھی لمحے ہمیں اپنا مکان مسمار کرنے کا فیصلہ آجائے گا۔ میں نے اپنا مکان مسمار نہ کرکے کوئی جرم  نہیں کیا۔ میں اپنے آبائو اجداد کی زمین پر بیٹھا ہوں غاصب نہیں ہوں۔

اس نے کہا کہ وسیع وعریض مسلم اور عرب دنیا کی خاموشی اور مجرمانہ غفلت کے نتیجے میں‌القدس کے ہر فلسطینی خاندان کو اپنے گھر اور زمین کی بقا کی فکر دامن گیر ہے مگر ان کی مدد کے لیے نہ تو عرب دنیا نے کوئی اقدام اٹھایا اور نہ ہی مسلمانوں نے ان کے لیے آواز بلند کی ہے۔

مختصر لنک:

کاپی