انتیس اگست 1987ء کو فلسطین کے مشہور عالمی کارٹونسٹ ناجی سلیم العلی کی شہادت کو 33 سال ہوگئے۔ ناجی العلی کی زندگی اور ان کی خدمات کے حوالے سے مرکزاطلاعات فلسطین نے ایک رپورٹ میں روشنی ڈالی ہے۔
ناجی العلی کو 22 جولائی 1987ء کو لندن میں نامعلوم مسلح صہیونی ایجنٹوں نے گولیاں ماریں جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوگئے۔ زخمی ہونے کے پانچ ہفتے بعد وہ لندن کے ایک اسپتال میں جام شہادت نوش کرگئے تھے۔
ناجی سلیم العلی کو فلسطین کی تحریک آزادی کا ایک منفرد مجاھد سمجھا جاتا ہے۔ انہوںنے عملی جہاد میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ اپنے قلم اور خاکہ سازی کے فن کے ذریعے فلسطینی قوم، وطن اور فلسطینی کاز کی بے مثال خدمت انجام دی۔ اپنے کارٹوںوں سے انہوں نے اسرائیلی ریاست کے فلسطین پر قیام، یہودیوں کے قبضے، فلسطینیوں کی جبری ھجرت، جلا وطنی، انقلاب، مزاحمتی عمل، دشمن، مظالم اور فلسطینیوں کی تحریک آزادی کو جلا بخشی اور ان موضوعات پر اپنے قلم اور کو استعمال کرتے ہوئے فلسطینی کازکو آگے بڑھایا۔
ناجی سلیم العلی سنہ 1938 کو شمالی فلسطین کے شہر الجلیل کے نواحی علاقوں الناصرہ اور طبریا کے درمیان الشجرہ گائوں میں پیدا ہوئے۔ سنہ 1948ٰ میں فلسطین میں قیام اسرائیل کے بعد جب صہیونی جرائم پیشہ عناصر نے فلسطینیوں کو تہہ تیغ کرنا شروع کیا تو اس ظلم سے تنگ آ کر ملک چھوڑنے والوں میں العلی خاندان بھی شامل تھا جو ھجرت کے بعد لبنان پہنچا اور عین الحلوہ پناہ گزین کیمپ میں اقامت اختیار کی۔
خنظلہ کےعرف کا انتخاب
ناجلی العلی نے عملی زندگی میں قدم رکھتے ہوئے اپنے اصل نام کے بجائے خنظلہ کا عرفی نام اپنایا۔ خنظلہ دراصل ایک دس سالہ لڑکے کا کردار تھا جو کم عمری میں اسرائیلی ریاست کے جرائم کا سامناکرتا ہے اور پوری زندگی اس جہد وجہد میں گذر دیتا ہے۔ ناجی العلی المعروف خنظلہ نے سنہ 1969ء میں کویت سے شائع ہونے والے جریدہ السیاسیہ میں بہ طور کارٹونسٹ کام شروع کیا اور سنہ 1973ء تک اس جریدے کےساتھ منسلک رہے۔
اس جریدے میں خنظلہ کے نام سے شائع ہونے والے خانوں نے بالعموم پورے عالم عرب بالخصوص اسلامی دنیا میں انہیں غیرمعمولی پذیرائی، مقبولیت اور شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ اس طرح خنظلہ ایک مظلوم مگر مضبوط فلسطینی کی علامت او استعارہ بن گیا جوتمام تر مشکلات کے باوجود دشمن کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہے۔
سنہ 1984ء میں مصری مصنفہ رضویٰ عاشور نے آسٹریا کے دارالحکومت پدا پسٹ میں خنظلہ کا ایک طویل اور تفصیلی انٹرویو لیا۔ اس میں ان سے خنظلہ کا تعارفی نام منتخب کرنے کا بھی سوال پوچھاگیا۔ انہوںنے بتایا کہ یہ میرے بچپن کا ایک استعارہ اور علامت ہے۔ جب مجھے اپنے خاندان کے ہمراہ ہمارے گائوں، شہر اور وطن سے نکال دیا گیا تو اس وقت میری عمردس سال تھی۔ میں آج بھی دس سال کا ہوں اور میری عمر اس وقت تک دس سال ہی رہے گی جب تک کہ میں اپنے وطن واپس نہیں پہنچ جاتا۔ انہوں نے کہا کہ ھجرت کو اب 35 سال کا عرصہ بیت گیا ہے کہ ھجرت کے دوران جو مظالم میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے انہیں پوری زندگی نہیں بھلا سکتا۔ صرف یہی نہیں بلکہ میں ھجرت کے وقت دس سال کا تھا اور مجھے اپنے گائوں کا ایک ایک حجر اور ایک درخت، پتھر اور سب کچھ اچھی طرح یاد ہے۔
انہوںنے کہا کہ میں نے اپنے نام کے ساتھ خنظلہ کا عرف اس لیے منتخب کیا کیونکہ خنظہ ایک ذمہ دار، محبت وطن، قوم سے محبت کرنے والا اور ایک بہادر بچہ ہے
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کا یہ تخیلاتی خنظہ کبھی بڑا بھی ہوگا تو ان کا کہنا تھا کہ جب میں اپنے واطن واپس جائوں گا تو خنظلہ بڑا ہوجائے گا مگر فلسطینی قوم کی اپنے وطن واپسی تک خنظلہ دس سال ہی کا ایک کردار رہے گا۔
سنہ 1963ء کو ناجی العلی نے کویت کے الطلیعہ اخبار میں شمولیت اختیار کی اور اس میں باقاعدگی کے ساتھ کارٹون شائع کرنے لگے۔ سنہ 1968ٰء میںانہوںنے جارج حبش کی قیادت میں قائم ہونے والی عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین میں شمولیت اختیار کی۔
الطلیعہ اخبار کی اشاعت بند ہونے کے بعد انہوںنے سنہ 1974ء تک کویت کے السیاسہ اخبار میں کارٹون شائع کیے۔ سنہ 1978ٰء میں لبنان لوٹ آئے اور وہاں پر سنہ 1983ء تک اخبار السفیر میں کارٹون شائع کرتے رہے۔ اس کے بعد انہوںنے ایک بار پھر کویت کے السیاسہ اخبار اور لندن سے شائع ہونے والے القبس انٹرنیشنل میں کام کیا۔
خنظلہ نے چالیس ہزار سے زاید فن پارے تیار کیے۔ سیکڑوں ایسے ہیں جنہیں شائع کرنے سے قبل سینسر کردیا گیا۔ سنہ 1967،1983 اور 1985ء میں انہوں نے بیروت، دمشق، عمان، فلسطین، کویت، واشنگٹن اور لندن سے تین کتابیں شائع کیں۔
شہادت
بدھ 22 جولائی سنہ 1987ء کو صبح پانچ بج کر 13 منٹ پر مغربی لندن کی شاہراہ ایفر میں القبس انٹرنیشنل اخبار کےدفتر کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے ان پر حملہ کرکے انہیں شدید زخمی کردیا۔ اگرچہ ناجی العلی کو پہلی سیکڑوں پر اسرائیل کے بدنام زمانہ خفیہ ادارے ‘موساد’ کی طرف سے قتل اور دیگر سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جا چکی تھیں مگر انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس روز دشمن ان کے سرپر پہنچ چکا ہے۔ انہیں کئی بار سیکیورٹی اداروں کی طرف سے کہا گیا تھاکہ موساد کے ہاتھوں ان کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔ تاہم تمام تر دھمکیوںکے باوجود العلی نے اپنا قلمی جہاد جاری رکھا اور کسی دبائو میں نہیں آئے۔ خنظلہ نے اپنی حفاظت کے لیے خود بھی کوئی انتظام نہیں کیا تھا۔ انہیں جب اپنے تحفظ کا کہا جاتا تو وہ جواب دیتے کہ احتیاط تقدیر کو نہیں ٹال سکتا۔
جب وہ پیٹر جونز کے گودام کےقریب پہنچے تو جینز میں ملبوس ایک سیاہ بالوں والے شخص نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کی اور خود فرار ہوگیا۔
ناجی العلی کو شدید زخمی حالت میں القدیس اسٹیفن اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وینٹی لیٹر پر منتقل کیا گیا۔ وہاں سے انہیں ریڈ کراس چارنگ اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ان کے بعض اعصاب کی سرجری کی گئی۔ وہاں سے انہیں دوبارہ القدیس اسٹیفن اسپتال منتقل کردیا گیا۔
ہفتے کے روز 29 اگست 1987ء کو العلی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔