چهارشنبه 30/آوریل/2025

عرب لیگ کا ہیڈ کواٹر’شادی ہال’ میں منتقل کرنے کی مہم کیوں؟

ہفتہ 12-ستمبر-2020

حال ہی میں عرب لیگ میں فلسطینی نصب العین کی حمایت اور صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات نارمل کیے جانے کے خلاف لیگ کے وزراء خارجہ کی سطح پر منعقدہ اجلاس میں قرارداد پیش کی گئی مگر عرب لیگ پرصہیونیت نوازوں کی اکثریت نے اس قراردادوں کو ناکام بنا دیا۔

فلسطین میں کی حمایت میں عرب لیگ میں کسی قرارداد کی ناکامی کا یہ پہلا واقعہ ہے جسے عرب ذرائع ابلاغ اور فلسطینی سیاسی اور سماجی حلقوں میں اسے ‘عرب لیگ کا تاریخی یوٹرن’ قرار دیا جا رہا ہے۔ عرب لیگ کے اس ناقابل قبول فیصلے کے نتیجے میں فلسطینی اور عرب ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر سخت رد عمل سامنے آیا اور اسے بعض نے عرب ممالک کی بزدلانہ سوچ اور صہیونی دشمن کی وفاداری کا مظہر قرار دیا ہے۔

سوشل میڈیا پر ایک مہم جاری ہے جس میں عرب لیگ کے ہیڈ کواٹر ‘شادی ہال’ منتقل کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ’فیس بک’ پر جاری مہم میں کہا گیا ہے کہ عرب لیگ اس وقت عرب ممالک کے مسائل کے حل کے بجائے صرف شغل میلے میں لگی ہوئی ہے۔ اس کے نزدیک صرف صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات اہم ہیں فلسطینی قوم نہیں۔

سوشل میڈیا پر جاری اس مہم کے روح رواں القدس کے ایک سماجی کارکن محمد اعمص ہیں۔ انہوں‌نے صارفین سے اپیل کی ہے کہ اس مہم میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیں اور اس کے فالورز کو ایک ملین سے بڑھائیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ عرب لیگ کوقاہرہ میں اس کے موجودہ صدر دفتر کئ بجائے کسی شادی ہال میں منتقل کیا جائے۔ ان کا کہناہے کہ عرب لیگ کے حوالے سے یہ سوشل میڈیا مہم کسی مخصوص پارٹی کے نظریاتی اصولوں یا پارٹی نظریات کی طرف داری نہیں بلکہ عرب لیگ کے عرب ممالک کےمسائل کے حل کے حوالے سے منفی کار کارکردگی ہے۔

اس مہم کو اب تک ایک لاکھ کے قریب لوگ فالو کرچکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس پر فیس بک اور ٹویٹر پر تبصرہ آرائی جاری ہے۔

فلسطینی اتھارٹی نے عرب لیگ کے فورم پر فلسطین کی حمایت میں قرارداد کی ناکامی پر کڑی تنقید کی اور امارات کے اسرائیل کے ساتھ طے پائے معاہدے کی حمایت کو فلسطینی قوم کےساتھ خیانت اور عرب امن فارمولے سے صریح انحراف قرار دیا۔

فلسطینی سفارتی ذرائع کے مطابق فلسطین کی طرف سے عرب لیگ میں پیش کی گئی قرارداد کی ناکامی کے پیچھے امارات اور اس کے حامی گروپ کا ہاتھ ہے جنہوں‌نے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کےقیام کی مذمت مسترد کردی۔

سوشل میڈیا پربھی عرب لیگ کے بزدلانہ برتائو کی شدید مذمت کی گئی۔ عرب ممالک کے وزراء کو عربوں اور فلسطینیوں کے بجائے اسرائیل کے نمائندے قرار دیا اور کہا کہ عرب ممالک کے وزرا صہیونی ریاست کے پیچھے لپکے جا رہے ہیں۔

سماجی کارکن مراد البرغوثی ٹویٹر پرایک بیان میں کہا کہ میرا عرب اقوام کومشورہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو عرب لیگ جیسے گھٹیا الفاظ نہ سکھائیں اور نہ ہی ابو الغیط جیسے شخص کی طرح تربیت کریں۔

احمد عبدالجواد نے لکھا کہ اپنی آل اولاد کو سکھائیں‌کہ عرب لیگ کا قیام برطانوی وزیر خارجہ انٹونی ایڈن کی تجویز پرعمل میں آیا تھا۔ اس نے عرب ممالک کے ظالمانہ نظام کی بنیادوں کو مضبوط کیا اور اس نے ہرمرحلے پر صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات اور دوستی کی حمایت کرکے حق کے بجائے باطل کا ساتھ دیا ہے۔

نفین ملک نے لکھا کہ  مرحومہ عرب لیگ اور عرب حکمرانوں سے پریشان نہ ہوں۔ اللہ اس ہی ڈرامے پر پردہ ڈالے جو عرب لیگ کی طرف سے کیا جا رہا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی