جمعه 15/نوامبر/2024

یمنی جزیرے پر امارات اور اسرائیل کا مشترکہ جاسوسی اڈا بنانے کا منصوبہ

پیر 14-ستمبر-2020

تقریبا ایک ماہ قبل متحدہ عرب امارات نے تمام عرب، اسلامی اور عالمی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قابض صہیونی ریاست کو تسلیم کیا اور اس کے ساتھ امن معاہدے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد دونوں  ملکوں نے تعلقات کو عملی میدان میں آگے بڑھاتے ہوئے عسکری اور جاسوسی کے شعبے میں بھی باہمی تعاون کا منصوبہ تیار کیا ہے۔

اسرائیل اور عرب ذرائع ابلاغ میں آنے والی خبروں میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت اور متحدہ عرب امارات یمن کے ‘سقطری’ نامی ایک جزیرے پر مشترکہ جاسوسی فوجی اڈہ بنانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ یہ جزیرہ یمن کے امارات کے حامی گروپ کے کنٹرول میں ہے تاہم یہ گروپ وہاں پر اسرائیل کے تعاون سے کسی قسم کے فوجی اڈے کے قیام کا حامی نہیں ہے۔

‘مرکز اطلاعات فلسطین کے فلسطین ڈائیلاگ نیٹ ورک نےعبرانی میڈیا میں ‘ٹیکون اولام’ کے عنوان سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیل اور امارات نے یمن کے جزیرہ سقطری میں ایک  مشترکہ انٹیلی جنس سینٹر قائم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ خلیج عرب میں اسرائیل کا امارات کے اشتراک سے یہ اپنی نوعیت کا پہلا اڈا ہوگا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حال ہی میں امارات اور اسرائیل کے سرکاری عہدیداروں پر مشتمل ایک وفد نے اس جزیرے کا دورہ بھی کیا اور وہاں پر جاسوسی اڈے کے قیام کے امکانات کا جائزہ لیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ جزیرہ جغرافیائی طور پر ایک ایسے مقام پر واقع ہے جہاں سے جاسوسی کے لیے مختلف آلات کو زیادہ بہتر انداز میں استعمال کرتے ہوئے جاسوسی کے مقاصد پورے کیے جاسکتے ہیں۔

فوجی امور سے متعلق معلومات شائع کرنے والی ‘انٹیلی جنس آن لائن’ ویب سائٹ کے مطابق چار ماہ قبل اس جزیرے پر امارات کے حامی ایک عسکری گروپ نے اپنا کںٹرول قائم کیا تھا۔ یہ تنظیم وہاں پر اسرائیل کے اشتراک سے اڈہ قائم کرنے کی حامی نہیں۔ اس نے اپنے سرپرست امارات کو اپنی مایوسی کے حوالے سے بتا دیا ہے۔

اس جزیرے کے خدو خال کے حوالے سے بات کرتے ہوئے رپورٹ میں ‌کہا گیا ہے کہ یہ سمندر کے قریب ہونے کے ساتھ ساتھ پہاڑوں سے گھرا جزری ہے جو  (SIGINT  یعنی انٹیلی جنس سگلنل بھیجنے کے لیے مفید ثابت ہوسکتا ہے۔
اگر یہاں پر اڈا قائم ہوجاتا ہے تو اسرائیل کے لیے قریب سے گذرنے والے چینی اور ایرانی کارگو جہازوں کی جاسوسی آسان ہوجائے گی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حال ہی میں چین نے ایران کے ساتھ 25 سال کے لیے ایک فوجی معاہدہ کیا ہے جس میں چین 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت چین ایران کو جدید ترین اسلحہ کے ساتھ ساتھ انٹیلی جنس آلات اور لاجسٹک آلات بھی فراہم کرے گا۔ یہ آلات زمینی یا فضائی راستوں کے بجائے سمندر کے راستے ایران تک پہنچائے جائیں گے۔ اس طرح یمن کے قریب سمندری جزیرے میں اسرائیل  اور امارات کا مشترکہ فوجی اڈا چینی آلات کی ایران کو فراہمی پر نظر رکھنے کے لیے کام آسکتا ہے۔

مشرق وسطیٰ میں سقطری اسرائیل کا دوسرا اور خلیج میں پہلا جاسوسی اڈا ہوگیا جو اسرائیل کی جنوبی حدود سے باہر ہوگا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امارات اور اسرائیل کے باہمی اشتراک سے قائم ہونے والے اس مجوزہ اڈے کے قیام کے بعد دونوں‌ ملکوں کے اتحادی ممالک کو بھی اس منصوبے میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح اسرائیل کو ایران کے خلاف کاروائیوں کے لیے مختص اھداف کے حصول کی خاطر  کھلا میدان مل سکتا ہے۔ اس طرح اسرائیل ایران کو شام، عراق، لبنان اور یمن میں  مداخلت سے روکنے کے لیے کام کرے گا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یمن کی امارات کی وفادار حکومت کے ساتھ ساتھ اس منصوبے کولیبیا کے منحرف جنرل خلیفہ حفتر، منحرف فلسطینی لیڈر محمد دحلان اور کئی دوسرے علاقائی لیڈروں کی حمایت مل سکتی ہے۔ محمد دحلان اس وقت امارات کے ولی عہد کے سیکیورٹی مشیر کے طور پربھی کام کررہے ہیں۔

 

مختصر لنک:

کاپی