حال ہی میں جب امریکا کی زیرنگرانی متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے قابض اور غاصب صہیونی ریاست کے مظالم میں اس کا ساتھ دینے کا اعلان کیا تو بالعموم پوری مسلم دنیا، عرب ممالک کی عوام اور زندہ ضمیر انسان بالخصوص فلسطینی قوم اسرائیل دوستی کے اس نام نہاد معاہدوں کے خلاف میدان میں آگئی۔
اس حوالے سے فلسطینی قوم اور اس کے حامیوں نے صہیونی دشمن کے جرائم اور اس کے ساتھ اتحاد کرنے والے ممالک کی نام نہاد دوستی مہم کو مسترد کر دیا۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ‘میثاق فلسطین’ کے عنوان سے ایک مہم بھی شروع کی گئی ہے۔
‘میثاق فلسطین’ ایک پٹیشن ہے جس پر زیادہ سے زیادہ لوگ دستخط کر کے اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس مہم کا مقصد فلسطینی قوم کے حقوق کی حمایت کرتے ہوئے فلسطینی قوم کی نصرت کرنا، امارات اور بحرین کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے اقدامات کو مسترد کرنا ہے۔
بحرین، امارات کے نام نہاد معاہدے اور مہم کی زمانی اہمیت
‘میثاق فلسطین’ مہم گذشتہ منگل کو مقامی وقت کے مطابق شام پانچ بجے شروع ہوئی۔ اسی روز مناما اور ابو ظبی صہیونی ریاست کے ساتھ امریکا میں ہونے والے ایک تقریب میں معاہدے پر دستخط کر رہے تھے۔ اس مہم میں فلسطینی قوم کی نصرت کے لیے کام کرنے والے 100 اداروں اور تنظیموں نے اپنا حصہ ڈالا ہے اور وہ سب بڑھ چڑھ کر اسے آگے بڑھا رہے ہیں۔
اس مہم کی ایک زمانی اہمیت ہے۔ اس مہم میں وہ لوگ شامل ہیں جو فلسطینی قوم کے آئینی، اصولی اور مسلمہ حقوق کی حمایت کرتے ہوئے فلسطینی قوم کے ساتھ نصر کر رہے ہیں۔
اس مہم میں پیش پیش فلسطینی تنظیموں میں امارات رابطہ گروپ برائے نصرت فلسطین، بحرینی مزاحمتی تنظیم برائے دفاع فلسطین، قطر یوتھ فورم برائے دفاع فلسطین، یوتھ گروپ برائے دفاع القدس اور عالمی اتحاد برائے نصرت القدس و فلسطین شامل ہیں۔
ميثاق فلسطين
اسرائیل مخالف اورفلسطینی مزاحمت کی حمایت کرنے والے رابطہ گروپ کے ڈائریکٹر انس ابراہیم نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عرب ، خلیجی ممالک اور مسلمان ملکوں کے عوام اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے حامی نہیں۔ عالم اسلام، عرب دنیا اور زندہ ضمیر لوگوں کی اکثریت فلسطینی قوم کے ساتھ اور صہیونی دشمن کے خلاف کھڑی ہے۔ بحرین اور امارات کے اسرائیل کے ساتھ معاہدوں کو جرم قرار دیتی ہے اور اسے فلسطینی قوم کے حقوق پر عرب ممالک کی مدد سے ڈاکہ زنی کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انس ابراہیم کا کہنا تھا کہ ‘میثاق فلسطین’ مہم کو آگے بڑھانے والی تنظیموں نے اس مہم کے سلوگن میں اسرائیل کے ساتھ معاہدوں کو شرمناک اور ناقابل قبول اقدام قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اللہ کے فضل و کرم سے صرف 20 گھنٹے کی مہم میں ایک ملین سے زیادہ مسلمانوں نے اس پر اپنے رد عمل کا اظہار کیا ہے اور یہ حمایت مسلسل جاری ہے۔
میثاق کے عربی متن کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے کہ ‘میں پورے ایمان اور یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ قضیہ فلسطین اور اس کے منصفانہ حل کے حوالے سے میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کا پوری طرح پابند ہوں۔ میں ایمان اور یقین کی بنا پر میں ‘میثاق فلسطین’ مہم میں شامل ہو کرایک قابض اور غاصب ریاست کے خلاف فلسطینی قوم کی حمایت میں آواز بلند کر رہا ہوں۔ میرا ایمان ہے کہ فلسطین کی آزادی اور قابض ریاست کی شکست تک مسلمانوں کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا ہوںگی۔ اسرائیل کی حیثیت ایک قابض اور غاصب ریاست کے سوا کچھ نہیں۔ اسرائیل نہ صرف فلسطین بلکہ مسجد اقصیٰ، ارض فلسطین اور القدس پر غاصبانہ قبضہ جمائے ہوئے ہے۔ ایسے میں صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوئی بھی کوشش خیانت تصور کی جائے گی’۔
اس مہم کے منتظمین کا کہنا ہے کہ صہیونی دشمن کے ساتھ تعلقات کا قیام ایک جرم ہے اور اس جرم کے خلاف آواز بلند کرنا تمام عرب اور مسلمان عوام اور زندہ ضمیرانسانوں کی اجمتاعی ذمہ داری ہے۔ اس لیے ہماری تمام فلسطین نواز اور حق وصداقت کے حامی افراد، اداروں، ممالک حکومتوں اور تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مہم کو آگے بڑھائیں اور سوشل میڈیا کے ایک ایک فورم پر اس کا پیغام پہنچا کر خود بھی شامل ہوں اور اس کار خیر میں دوسرے لوگوں کو بھی شام کریں۔