جمعه 15/نوامبر/2024

‘ناس ڈیلی’ پروگرام کا میزبان ‘نصیر یاسین فلسطینیوں کےلیے آستین کا سانپ

منگل 22-ستمبر-2020

خلیجی ملکوں متحدہ عرب امارات اور بحرین کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور صہیونی ریاست کے ساتھ معمول کے مطابق تعلقات استوار کرنے کے اعلان کے بعد جہاں ایک طرف فلسطینی قوم کے حقوق کے حامی حلقوں کی طرف سے اس پیش رفت پر سخت رد عمل سامنے آیا وہیں بعض اسرائیل نواز اور مغرب کے پروردہ افراد بھی مزید بے نقاب ہوگئے ہیں۔ انہی میں نصیر یاسین نام اسرائیلی ریاست کے حامیوں میں بدنامی کی حد تک مشہور ہے۔

نصیر یاسین کون ہے؟

نصیر یاسین نامی ایک نام نہاد سماجی کارکن اور صحافی فلسطین کے شمالئ شہر الجلیل کے نواحی علاقے عرابہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کا شمار اسرائیلی ریاست کے جرائم پر پردہ ڈالنے والے ننگ آدمیت عناصر میں ہوتا ہے۔ وہ اپنے مذموم افکار کی ترویج کے لیے سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا کا بھی استعمال کرتا ہے۔ اسرائیل کی حمایت پر اسے امریکا، اسرائیل اور صہیونیوں کے حامی طبقات میں کافی پذیرائی حاصل ہے۔

نصیر یاسین سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقے الجلیل کے عرابہ گائوں کا رہائشی ہے مگر وہ طویل عرصے سے امریکا میں مقیم ہے۔ اس نے امریکا کی ہاروڈ یونیورسٹی سے ٹیلی کام اور مواصلات کے شعبے میں تعلیم حاصل کی۔

وہ سوشل میڈیا پر اسرائیل کے حامیوں میں شامل ایک جانا پہچانا نام ہے جو مختصر دورانیے کی ویڈیوز بنا کر ان کے ذریعے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی حمایت کرتا رہا ہے۔ سنہ 2016ء کےبعد امریکا کے نیویارک سٹی کی انتظامیہ کی طرف سے اسے سالانہ ایک لاکھ 20 ہزار ڈالر کی گرانٹ ملتی رہی ہے۔ اس وقت اس کی عمر صرف 24 سال تھی اور وہ دنیا کے سفر پر نکل کھڑا ہوا تھا۔ نیویارک سٹی کی طرف سے اس کی مالی معاونت کا مقصد ہی اس کی اسرائیل ، یہودیوں اور صہیونیوں کی حمایت میں پروپیگنڈہ مہم چلانا تھا۔ وہ سفر کرتا گیا اور ساتھ ہی وہ چھوٹی چھوٹی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر لوڈ کرتا جن میں‌کہیں نا کہیں اسرائیل کی حمایت اور صہیونی ریاست کو تسلیم کرنے کا پیغام پنہاں ہوتا۔

قابض اسرائیل کی نیک نامی کی بھونڈی کوشش

مصری دانشور اور مصنفہ آیہ حمزہ نے مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے نصیر یاسین اور اس کے نام نہاد پروگرام’ ناس ڈیلی’ کو صہیونی ریاست اور اس کے بہی خواہوں کا آلہ کار قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ صہیونی ریاست کو ایسے ہی ننگ آدمیت اور فلسطینی قوم کے دشمن آستین کےسانپوں کی ضرورت ہے جو اس کے مکروہ جرائم پر پردہ ڈالنے کے ساتھ ساتھ اس کے بدنما چہرے کو خوش نما  بنا کر پیش کریں۔ نصیر یاسین جیسے آستین کے سانپ ایک ایک منٹ کی ویڈیوز بنا کر فیس بک۔ یوٹیوب اور دوسرے سوشل میڈٰیا پلیٹ فارم پر پوسٹ کرتے ہیں۔اس طرح وہ صہیونی ریاست کے بدنما اور مکروہ چہرے کو دنیا کے سامنے معصوم بنا کر پیش کرنے کی مذموم مہم کا حصہ بن جاتے ہیں۔

انہوں‌نے کہا کہ نصیر یاسین اپنی ویڈیوز میں یہ ظاہر کرتا ہے کہ سنہ 1948ء میں ارض فلسطین میں صہیونی ریاست کاقیام  آئینی تھا۔ اس جنگ کے دوران بعض فلسطینی مارے گئے۔ کچھ نے خود ہی گھر بار چھوڑ دیا اور کچھ ابھی تک اپنے علاقوں میں رہتے ہیں۔ مگر وہ ان ویڈیوز میں فلسطینیوں کے اجتماعی قتل عام پورے کے پورے شہروں کو نیست ونابود کرنے اور تھوڑے ہی عرصے میں ساڑھے ساتھ لاکھ فلسطینیوں‌ کو ھجرت پر مجبور کرنے کے سنگین جنگی کو فراموش کر جاتا ہے۔

نصیر یاسین فلسطینیوں‌پر اسرائیل کی سرحدوں‌کو قبول کرنے پر زور دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اب پیچھے نہیں بلکہ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے بجائے فلسطینیوں کو بہتر زندگی کے حصول کی طرف توجہ دینی چاہیے۔

آیہ حمزہ کا مزید کہنا ہے کہ نصیر یاسین کا پروگرام دراصل صہیونی ریاست کے ہاتھ میں ذرائع ابلاغ کے ہتھیاروں میں سے ایک ہھتیار ہے جس کی مدد سے وہ رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے اثر انداز ہو رہا ہے۔

نیو ناس ڈیلی نے ایک نیا پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا مقصد ایسے ہی 80 مزید استین کے سانپ تیار کرنا ہے جو صہیونی ریاست کے مکروہ کردار اور اس کے جرائم کو خوش نما بنا کر پیش کرسکیں۔ اس طرح اسرائیل کو عرب رائے عامہ پر اثرانداز ہونے کا موقع مل سکے۔ اس مجرمانہ مہم کی نگرانی کے لیے صہیونیوں‌کی بھی خدمات حاصل کی جائیں گی۔

جلاد کے ہاتھ صاف کرنے کی کوشش

نصیر یاسین نے اکتوبر 2017ء کو  "هذا غير مقبول”  یعنی ‘یہ ناقابل قبول ہے’ کے عنوان سے ایک ویڈیو جاری کی۔ اس میں اس نے استفسار کیا کہ بھارتی ہوائی جہازوں کو اسرائیلی پاسپورٹ رکھنے والے مسافروں کو کویت کی فضائی سے گزرنے کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی۔ اس ویڈیو کو صہیونیوں اور اسرائیل کے ہاں غیر معمولی پذیرائی حاصل ہوئی۔

اسرائیلی اخبار ‘ٹائمز آف اسرائیل’ نے لکھا کہ کویت نے یہ موقف اس لیے اختیار کیا ہے کیونکہ وہ فلسطینیوں کا حامی ہے جب کہ نصیر یاسین نے کویت پر اس لیے تنقید کی کیونکہ یہودی کویت نے یہودی ریاست کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ اس ویڈیو کو چند روز کے اندر اندر یوٹیوب پر 4 لاکھ لوگوں نے دیکھا۔

ایک منٹ کی ویڈیو اور کروڑوں ناظرین

فلسطین میں جغرافیے اور تاریخ کے استاد علی الرباح نے مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نصیر یاسین کی ہرویڈیو ایک منٹ سے زاید دورانیے کی نہیں ہوتی مگر اس کے ناظرین کروڑوں میں ہیں۔ ان ویڈیوز کا اصل مقصد ہمیں اسرائیل کے ساتھ امن کے معاہدوں پر راضی کرنا اورعرب اقوام کو ذہنی طور پر اسرائیل کو قبول کرنے پر آمادہ کرنا ہے۔ اگرچہ نصیر یاسین کا ٹارگٹ تمام عرب اور فلسطینی ہیں مگر نوجوان نسل خاص طور پر ہدف کیونکہ سوشل میڈیا کا زیادہ سے زیادہ نوجوان ہی استعمال کرتے ہیں۔ فلسطینیوں‌ کی وہ نسل جس نے سنہ 1948ء کی النکبہ اور سنہ 1967ء کی الکسہ کے مظالم دیکھے ہوں، جن بچے اور پیارے ان کی آنکھوں کے سامنے سنگینوں پر چڑھائے گئے ہوں وہ اس طرح کی پروپیگنڈہ ویڈیوز کو اہمیت نہیں دیتے۔ تاہم انہوں‌نے نصیر یاسین جیسے پروپیگنڈہ عناصر کی صہیونی ریاست کو قبول کرنے کے لیے شروع کی گئی مہم کو خطرناک قرار دیا۔

مختصر لنک:

کاپی