جمعه 15/نوامبر/2024

کیا ترکی کی ثالثی میں فلسطینی دھڑوں میں مصالحتی کوشش کامیاب ہوگی؟

جمعرات 24-ستمبر-2020

فلسطینی دھڑوں میں سنہ 2006ء کے بعد پیدا ہونے والے اختلافات کو ختم کرنے کی کئی بار کوششیں ہوچکی ہیں۔ متعدد ممالک نے فلسطینی دھڑوں میں مصالحت کی کوششیں کیں۔ اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ اور فتح جیسی بڑی جماعتوں کے درمیان کئی ثالثی معاہدے ہوئے۔  مگر عملا فلسطینیوں میں قومی مفاہمت کی کوششیں ثمر آور ثابت نہیں ‌ہوسکیں۔

حال ہی میں فلسطینی قوتوں نے لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ایک کل جماعتی کانفرنس منعقد کی جس میں حماس اور فتح کی قیادت سمیت ایک درجن سے زاید فلسطینی دھڑوں کی نمائندہ اور سرکردہ قیادت نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کے اعلامیے میں دیگر امور کے ساتھ ساتھ فلسطینی دھڑوں میں ‌صلح کےلیے ایک فریم ورک تیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ طے پایا کہ فلسطینی دھڑوں میں مصالحت کے لیے ایک کمیشن قائم کیا جائے گا جو ایک ماہ کے اندر اندر مصالحتی تجاویز اور سفارشات تیار کرے گا۔

اسی پیش رفت کو آگے بڑھاتے ہوئے دو روز قبل ترکی کی میزبانی میں فلسطینی دھڑوں کا اجلاس ہوا جس میں حماس اور فتح کی قیادت نے شرکت کی۔ ترکی علاقائی سطح پر اثرو رسوخ رکھنے والا ملک ہے جس کے حماس اور تنظیم آزادی فلسطین کے ساتھ ساتھ فتح کے ساتھ بھی مضبوط تعلقات قائم ہیں۔

ترکی میں ہونے والے فلسطینی دھڑوں کے اجلاس میں رواں ماہ بیروت میں ہونے والے جلاس میں طے پائے امور کو آگے بڑھانے اور فلسطینی دھڑوں میں مصالحتی عمل پر عملی پیش رفت کی کوشش کی گئی۔

ترکی میں فلسطینی دھڑوں کے مصالحتی مذاکرات سے ایک بار پھر فلسطینیوں میں صلح‌ کی کوششوں کو آگے بڑھانے کی امید پیدا ہوئی ہے۔ ترکی فلسطینی قوتوں کے ساتھ اچھے تعلقات کی بدولت اور قضیہ فلسطین کے حوالے سے اصولی موقف کی وجہ سے فلسطینیوں کے لیے زیادہ قریب ہے۔

گذشتہ مہینے حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ھنیہ نے ترکی کےدورے کے دوران صدر رجب طیب ایردوآن کے ساتھ بھی ملاقات کی تھی۔ یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی جب دوسری طرف عرب ممالک صہیونی ریاست کے ساتھ قربت پیدا کرنے کی مذموم مہات جاری رکھے ہوئے ہیں۔

رواں ماہ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس اور ترک صدر طیب ایردوآن کے درمیان متعدد بات فون پر بات چیت بھی ہوچکی ہے۔ ترک صدر نے فلسطینی ہم منصب کو یقین دلایا کہ وہ عرب ممالک کی صہیونی ریاست کے ساتھ دوستی ٹرین اور غرب اردن کے اسرائیل سے الحاق کے پروگرام کو قبول نہیں کریں گے۔ اس حوالے سے ترکی فلسطینی قوم اور قیادت کے اصولی موقف کی حمایت کرے گا۔ ترک صدر کا کہنا تھا کہ انقرہ مشرقی بیت المقدس کو اسرائیلی ریاست کا دارالحکومت بنانے کی سازشوں کی ہرفورم پرمخالفت کرے گا۔

علاقائی اثرات

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ عرب ملکوں‌کی دوستی کی مہم کے دوران فلسطینی قوم کے حقوق کے حامیوں اور اس حوالے سے امریکی کشتی میں سوار ہونے والوں کو الگ الگ کر دیا ہے۔ امریکا نے بعض عرب ممالک کے ساتھ مل کر تاریخی ارض فلسطین پر صہیونی ریاست کے وجود کو آئینی شکل دینے کے لیے بھرپور مہم برپا کررکھی ہے۔ 

ایسے میں انقرہ کا قضیہ فلسطین کی حمایت پرمبنی اصولی موقف زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے بعد ترکی نے ان دونوں ملکوں کے ساتھ سفارتی درجہ کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترکی کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات سنہ 2012ء کو غزہ میں بھیجے جانے والے بحری امدادی  مشن میں شامل رضاکاروں کے قتل عام کے بعد کافی متاثر ہیں۔

تجزیہ نگار طلال عوکل نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ترکی کا قضیہ فلسطین کے حوالے سے سیاسی موقف قابل تحسین ہے۔ ایسے میں ترکی فلسطینی دھڑوں کے درمیان مصالحت کے لیے بہتر ماحول فراہم کرسکتا ہے۔ اس کی ایک  وجہ حماس اور تنظیم آزادی فلسطین میں شامل تمام دھڑوں کے ساتھ خوش گوار تعلقات ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینیوں نے ترکی کو مصالحت کے لیے ایک مرکز بنا کر درست فیصلہ کیا ہے۔ قضیہ فلسطین کو درپیش مشکلات اور موجودہ حالات میں ترکی فلسطینیوں کے درمیان مصالحت کی بہتر کوشش کرنے کی پوزیشن میں ہے۔

دو روز قبل ترک صدر نے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں مسئلہ فلسطین کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے استفسار کیا کہ آیا اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی فلسطین کے بارے میں منظور کی جانے والی قراردادوں پرعمل درآمد کیوں نہیں کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اقوام متحدہ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اپنی قراردادوں پرعمل درآمد نہیں کراسکتی تو اس کا کیا فایدہ ہے۔

تجزیہ نگار ڈاکٹر محمود العجرمی نے کہا کہ فلسطینیوں کا ترکی کو مصالحتی مذاکرات کے لیے منتخب کرنا فلسیطنی اتھارٹی اور پی ایل او کی نیک نیتی کا اظہار ہے۔ 

فلسطینیوں کی حمایت

فلسطین کے تمام دھڑوں کا خیال ہے کہ عرب ممالک کی حکومتیں قضیہ فلسطین کے حوالے سے اپنی اصولی، آئینی ، اخلاقی، سیاسی اور دینی ذمہ داریوں سے الگ تھلگ ہوگئے ہیں۔ عرب ممالک نے خود کو اسرائیل اور امریکا کی گود میں ڈال دیا ہے۔ ایسے میں فلسطینیوں کو ماضی کی نسبت زیادہ یکجہتی کی ضرورت ہے۔ فلسطینیوں کے پاس  قضیہ فلسطین کی حمایت کے حصول کے لیے ایک نئے اتحاد کی ضرورت ہے۔ فلسطینیوں کا ترکی کے قریب آنا اور اس کے ساتھ مل کر ایک  نئے علاقائی اور عالمی اتحاد کی کوشش کرنا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

تجزیہ نگار عوکل کا کہنا ہے کہ عرب ممالک نے قضیہ فلسطین کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سےفرار اختیار کر کے فلسطینیوں کو متبادل کی تلاش پرمجبور کیا ہے۔ فلسطینیوں کے پاس اب قضیہ فلسطین کی حمایت کرنے والے ممالک کو اپنے ساتھ ملانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں اور موجودہ حالات میں ترکی سے بہتر فلسطینیوں کے لیے کوئی اور متبادل نہیں ہوسکتا۔

مختصر لنک:

کاپی