اسرائیل نے مسجد اقصیٰ کو نقصان پہنچانے اور نتیجتا اسے شہید کرنے کے لیے زیرزمین آثار کی تلاش کی آڑ میں مسجد کی بنیادوں تلے کھدائیوں کا سلسلہ کئی سال قبل شروع کیا۔ مگر دوسری طرف فلسطینی قوم نےاسرائیلی ریاستی دہشت گردی کا مقابلہ اور مسجد اقصیٰ کے خلاف سازشوں کا اپنی جانیں دے کر دفاع کیا۔
سنہ 1996ء میں صہیونی ریاست نے مسجد اقصیٰ کی بنیادوں تلے کھودی گئی پہلی سرنگ آمد ورفت کے لیے کھولی تو اس پر فلسطین میں ایک نئی تحریک کا آغاز ہوا۔
‘ھبۃ النفق’ یعنی ٹنل اڑا دو تحریک کے دوران فلسطینیوں نے فدائی حملے شروع کیے جن میں کئی غاصب صہیونیوں کو جھنم واصل کیا گیا۔
فلسطینیوں کی نئی نسل اس تحریک میں پیش پیش رہی اور اس نے یہ ثابت کیا کہ فلسطینی ہردور اور ہرحال میں القدس اور قبلہ اول کا دفاع کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اسی تحریک کو آگے بڑھاتے ہوئے 25 ستمبر 1996ء کو مسجد اقصیٰ کی مغربی دیوار کے نیچے دیوار کی کھدائی کے خلاف احتجاج کا آغاز کیا۔
سرنگ کا افتتاح بالعموم فلسطینی قوم بالخصوص القدس کے فلسطینی باشندوں کو احتجاجی تحریک پر اکسانے کا ذریعہ ثابت ہوا۔ احتجاجی تحریک میں فلسطین کے عوامی، سیاسی، سماجی اور سیکیورٹی حلقے بھی شامل ہوگئے۔ اس دوران القدس اور غرب اردن سمیت دوسرے فلسطینی علاقوں میں بھی مزاحمتی سرگرمیوں کا آغاز کیا گیا۔ ان سرگرمیوں میں سب سے نمایاں مشرقی نابلس میں مقام یوسف پر 40 اسرائیلی فوجیوں کا محاصرہ شامل ہے۔ اس جگہ کو اسرائیلی فوجیوں سے خالی کرایا گیا اور کئی سال کے بعد فلسطینیوں کو وہاں پر اذان دینے کا موقع ملا۔
سنہ 1996ء میں مسجد اقصیٰ کی مغربی دیوار کے نیچے سرنگ کی کھدائی کا حکم وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے دیا تھا جس نے پورے فلسطین کو اس مجرمانہ اعلان کے خلاف متحد کردیا۔ شمالی فلسطین سے جنوبی فلسطین تک فلسطین کا قریہ قریہ ‘دفاع القدس اور الاقصیٰ’ کے نعروں سے گونج رہا تھا۔
بیت المقدس میں فلسطینیوں کی طرف سےنام نہاد سرنگ کی کھدائی روکنے کے لیے زور دار احتجاجی تحریک کا اعلان کیا گیا۔ فلسطینیوں نے بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیا۔
فلسطینیوں کی یہ احتجاجی تحریک مسلسل چھ ماہ تک جاری رہی۔ اس دوران درجنوں فلسطینی قبلہ اول کے دفاع میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے شہید اور 1600 سے زاید زخمی ہوئے۔
پرامن فلسطینی مظاہرین کو کچلنے کے لیے صہیونی فوج نے سفاکانہ طاقت کا استعمال کیا۔ مظاہرین کے خلاف فوجی ہیلی کاپٹروں، ٹینکوں اور دیگر بھاری ہتھیاروں سے گولہ باری کی گئی جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں جانی نقصان ہوا۔ اس دوران قابض فوج نے مسجد اقصیٰ کے تمام دروازے بند کردیے اور فلسطینیوں کو مسجد میں نماز کی ادائی سے بھی محروم کردیا۔