جمعه 15/نوامبر/2024

امیر کویت الشیخ صباح الاحمد کا انتقال ایک عہد کا اختتام

جمعرات 1-اکتوبر-2020

بالآخر امیر کویت الشیخ صباح الاحمد جابر الصباح‌ جن کی انسانی خدمات پر ‘امیر انسانیت’ کہا جاتا تھا 91 سال کی عمر میں دار فانی سے کوچ کرگئے۔ ان کی موقت نہ صرف اہل کویت بلکہ فلسطینی قوم پر بھی بجلی بن کری۔ ان کی وفات سے ایک عہد کا اختتام ہوگیا ہے۔ اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ نے امیر کویت کی وفات کو پوری مسلم امہ کے لیے ناقابل تلافی المیہ قرار دیا ہے۔

مرحوم فلسطینی قوم کے دیرینہ حقوق کی حمایت اور صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ایک مضبوط، ٹھوس اور جرات مندانہ موقف رکھتے تھے جس پر بہت سے علاقائی لیڈروں کو ان سے شکایت تھی کہ وہ اسرائیل کے حوالے سے نرم گوشہ کیوں نہیں رکھتے اور فلسطینیوں کے حقوق کے لیے آواز کیوں بلند کرتے ہیں۔ مگر فلسطینی قوم ان کے احسانات کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔

مرحوم الشیخ صباح جابر الصباح نے قضیہ فلسطین کے حوالے سے لا متناہی خدمات انجام دیں۔ حالانکہ فلسطینی قیادت اور کویت کے درمیان کافی تنائو بھی رہا ہے۔ سنہ 1991ء میں جب عراق نے کویت پرحملہ کیا تو اس وقت فلسطینی لیڈر یاسرعرفات نے کویت کے بجائے صدام حسین کی حمایت کی تھی۔ اس پر فلسطینیوں اور کویت کے درمیان کافی کشیدگی بھی پیدا ہوئی۔

سنہ 2013ٰء‌کو کویت میں فلسطینی سفارت خانے کو دوبارہ کھول دیا گیا۔ سفارت خانے کا کھولا جانا کویت کی جانب سے قضیہ فلسطین اور فلسطینی قوم کے نصب العین کی حمایت کا کھلا ثبوت ہے۔

سنہ 1948ء میں صہیونی ریاست کے قیام کے وقت کویت پہلا خلیجی ملک تھا جس نے فلسطینی مہاجرین کے لیے اپنے دروازے کھول دیے۔ فلسطینیوں اور کویت کےدرمیان سنہ 1991ء تک مضبوط رشتہ قائم رہا مگر یاسرعرفات کی غلط پالیسی کی وجہ سے فلسطینی قوم اپنے اس عظیم اور دیرینہ محسن سے دور ہوگئی۔

دوسری طرف کویت کی قیادت نے ہمیشہ فراخ دلی کا مظاہرہ کیا۔ جب اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر جارحیت مسلط کی تو امیر کویت نے اپنے وزیر خارجہ کی قیادت میں ایک اعلیٰ اختیاراتی وفد رام اللہ روانہ کیا تاکہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف فلسطین ۔ کویت مشترکہ کمیٹی کی تشکیل دی جاسکے۔

سنہ 2008ء سنہ 2012ء اور 2014ء کو جب اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر طاقت کا استعمال کیا تو کویت نے دل کھول کر فلسطینی قوم کی مدد کی۔

اقوام متحدہ سمیت دنیا کے ہر فورم پرامیر کویت کے مندوبین نے ہمیشہ فلسطینی قوم کے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔ سنہ 2018ء کو جنرل اسمبلی کے اجلاس سے کویت کے مندوب نے جس جُرات کےساتھ فلسطینیوں کے حقوق کا مقدمہ لڑا اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ امیر کویت کے مندوب نے کہا کہ کویت نے فلسطینی قوم کے حقوق کی حمایت کا عہد کر رکھا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کویت سنہ 2018ء کو جنرل اسمبلی میں مستقل  نشست ملنے سے قبل اور اس کے بعد بھی فلسطینیوں کے حقوق کا مقدمہ لڑتا رہے گا۔

مروزق الغانم

کویت نے الشیخ صباح الاحمد جابر الصباح کی قیادت میں فلسطینیوں کی غیر مسبوق حمایت جاری رکھی۔ کویت کی مجلس امہ ‘پارلیمنٹ’ کے اسپیکر مرزوق الغانم سابق امیر کویت کے قضیہ فلسطین کےحوالے سے موقف کا واضح ثبوت ہیں۔ مرزوق الغانم نے حقیقی معنوں میں نہ صرف امیر کویت بلکہ فلسطینی قوم کی ترجمانی کی۔ اکتوبر 2018ء کو مرزوق الغانم نے بین الاقوامی پارلیمانی فیڈریشن کے 137 ویں سالانہ اجلاس سے خطاب میں صہیونی ریاست کو ایک غاصب اور بچوں کی قاتل ریاست قرار دیا جس پر اجلاس میں‌موجود اسرائیلی وفد نے ان کا بائیکاٹ کیا تھا۔ مرحوم امیر کویت نےان کے اس بیان کو سراہا تھا۔

سنہ 2017ء کو عرب پارلیمنٹ کے القدس کی صورت حال سے متعلق اجلاس سے خطاب میں مرزوق الغانم نے کہا تھا کہ یہ امرانتہائی افسوس کا باعث ہے کہ مسلمان اور عرب ممالک کی صفوں میں فلسطینیوں کے حوالے سے شکست خوردگی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ میں شکست خوردہ عناصر سے پوچھتا ہوں‌کہ کیا اگر ہم اسلحہ کے ذریعے فلسطینی قوم کی مدد نہیں کرسکتے تو ہم اپنی زبانیں‌بھی بند کردیں گے۔ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم قضیہ فلسطین کے اصولی موقف سے پیچھے ہٹ جائیں۔

اسرائیل سے تعلقات بارے موقف

خلیجی ریاستوں متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے اور صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے بعد کویت نے کھل کر کہا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔ کویت کی سیاسی اور سماجی تنظیموں نے پارلیمنٹ اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کو ‘جرم’ قرار دیا۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کویت پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے امریکا اور خطے میں اس کے دوسرے حواریوں کی طرف سے سخت دبائو ڈالا گیا تاہم کویت نے کھل کر یہ دبائو مسترد کر دیا ہے۔

کویتی پارلیمنٹ کے 50 میں سے 41 ارکان نے ایک ایسی پٹیشن پر دستخط کیے جس میں قضیہ فلسطین کو ریاست کا مستقل عمل اور پالیسی قرار دیا اور اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ ان کاکہنا تھا کہ وہ دوسرے عرب ملکوں کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے فیصلوں کو قبول نہیں کریں گے۔

مختصر لنک:

کاپی