یہ آٹھ اکتوبر1990ء کا المناک دن تھا جب ناپاک صہیونیوں نے ظہر کی نماز کے وقت مقامی وقت کے مطابق 2 بجے مسجد اقصیٰ میں گھس کر وہاں پر نماز میں مصروف نمازیوں پر بے رحمی کے ساتھ فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 22 نمازی شہید اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ مسجد اقصیٰ کا مرکزی ہال شہید اور زخمی نمازیوں کے خون سے لت پت تھا اور ہرطرف زخمیوں کے کراہنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
مسجد اقصیٰ میں مسلحیہودی دہشت گردوں کی ننگی جارحیت کا یہ اب تک کا سب سے گھنائونا واقعہ ہے۔ اس موقعے پر صہیونیوں نے جس بربریت اور سفاکیت کے ساتھ نہتے فلسطینی مسلمانوں کا مسجد میں گھس کر قتل عام کی اس کی انسانی تاریخ میں کم ہی مثال ملتی ہے۔ فلسطینی قوم مسجد اقصیٰ کی 1990ء اور مسجد ابراہیمی میں 1994ء کو ماہ صیام کی فجر کی نماز میں ہونے والے بے رحمانہ قتل عام کو کبھی فراموش نہیں کر سکے گی۔
مسجد اقصیٰ میں نہتے فلسطینیوں کے خلاف صہیونی ریاست کی منظم ریاستی دہشت گردی کی نہ صرف فلسطین بلکہ عالمی سطح پر اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔
یہ واقعہ 8 اکتوبر 1990ء کو نماز ظہر سے کچھ ہی دیر قبل پیش آیا جب یہودی آباد کاروں کے ایک گروپ ‘امنائے ہیکل’ نے مسجد اقصیٰ میں مزعومہ ہیکل سلیمانی کا سنگ بنیاد رکھنے کا اعلان کیا۔ اس مذموم مقصد کے لیے دسیوں یہودی آباد کاروں نے مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے کی کوشش کی تو فلسطینی نمازیوں نے اُنہیں روکنے کی کوشش تو مسلح صہیونی نہتے فلسطینی نمازیوں پر پل پڑے جس کے نتیجے میں 22 فلسطینی شہری موقع پر ہی شہید اور 200 زخمی ہوگئے جب کہ 270 فلسطینیوں کو حراست میں لے لیا گیا۔
نفرت کی آگ
سنہ 1967ء کی عرب ۔ اسرائیل جنگ کے بعد مسجد اقصیٰ کے خلاف صہیونی ریاست کی طرف سے مسجد اقصیٰ کے خلاف انتقامی حربوں کا آغاز ہو گیا۔ سنہ 1969ء میں انتہا پسند یہودیوں کے ایک گروپ نے مسجد اقصیٰ میں گھس کر مقدس مقام کی بے حرمتی کی۔ سنہ 1982ء کو مسجد اقصیٰ کی بنیادوں کے نیچے کھدائیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سنہ 1986ء اور 1987ء میں اسرائیلی ریاست کی حمایت یافتہ صہیونی گروپوں نے مسجد اقصیٰ میں مسجد اقصیٰ میں گھس کر مقدس مقام کی بے حرمتی کی سازشیں تیز کر دیں۔
مگر اس وقت مسجد اقصیٰ پر دھاوے بولنے والے آباد کاروں کی تعداد کم تھی اور آج کی طرح سیکڑوں میں نہیں تھی۔ یوں انہوں نے ایک بار پھر مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی کے قیام کی سازشیں تیز کر دیں۔
انتہا پسند یہودی’جرشون سلمون’ اور اس کی تنظیم امناء جبل ہیکل’ نے مسجد اقصیٰ میں یہودی آباد کاروں نے ہیکل سلیمانی کے سنگ بنیاد کی کوششیں تیز کردیں۔ یہاں تک کہ 8 اکتوبر 1990ء کو مقامی وقت کے مطابق دن 11 بجے یہودی آباد کاروں نے مسجد اقصیٰ میں داخل ہو کرمقدس مقام کی بے حرمتی کی کوشش کی۔
شہداء مسجد اقصیٰ
مسجد اقصیٰ میں نہتے فلسطینیوں کا خون خرابہ یہودیوں کے مذہبی تہوار ‘یوم کپور’ کے موقع پر کیا گیا۔ مسجد اقصیٰ میں نہتے فلسطینیوں کا قتل عام اسرائیلی فوج اور ریاست کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔
مسجد اقصیٰ میں نہتے فلسطینی نمازیوں کے قتل عام سے آدھ گھنٹا پیشتر قابض فوج نے مسجد اقصیٰ کی طرف آنے والے تمام راستوں کی ناکہ بندی کر دی۔ اس موقع پر فلسطینیوں کی بڑی تعداد مسجد اقصیٰ میں یہودیوں کی ممکنہ دراندازی اور دھاووں کے پیش نظر جمع ہو چکی تھی۔
قابض فوج نے نہتے فلسطینی نمازیوں پر زہریلی گولیاں چلائیں اوراشک آور گیس کی شیلنگ کی جس کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت 22 فلسطینی موقع پر ہی شہید اور 200 زخمی ہوگئے۔ مسجد اقصیٰ کا صحن فلسطینی نمازیوں کے خون سے رنگین ہوگیا۔ قابض فوج نے مسجد اقصیٰ میں گھس کر مقدس مقام کی بے حرمتی کرتے ہوئے زخمی ہونے والے فلسطینیوں کو مزید تشدد کا نشانہ بنایا۔ انہیں زنجیروں میں باندھا اور گاڑیوں میں ڈال کر حراستی مراکز منتقل کردیا گیا۔
اسرائیلی ریاست کی منظم دہشت گردی کا یہ بدترین واقعہ تھا جس میں نہتے فلسطینیوں کو مسجد اقصیٰ میں گھس کر شہید کیا گیا اور مقدس مقام کے تقدس کو بری طرح پامال کیا گیا۔ مسجد اقصیٰ میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کا تعلق مقبوضہ بیت المقدس، غرب اردن اور اندرون فلسطین سے تھا۔ اس واقعے نے عالم اسلام کو ایک بار پھر سخت غم وغصے کی کیفیت سے دوچار کیا اور فلسطینیوں کے خلاف قابض فوج کے وحشیانہ کریک ڈائون کی شدید مذمت کی گئی۔
عالم اسلام کی طرف سے اس واقعے پرمذمتی بیانات کے سوا کچھ نہ کیا جا سکا اور آخر کار یہ واقعہ بھی عالمی اداروں کے دفاتر میں پڑے فائلوں کے دبستان میں دب گیا۔ اس کا کرب اگر کسی کو یاد ہے تو وہ فلسطینی ہیں جن کے پیاروں کو مسجد میں بے دردی کے ساتھ گولیوں سے بھون دیا گیا یا وہ زخمی ہیں جو آج تک معمول کی زندگی شروع نہیں کرسکے۔
یہودی آباد کار ایک بار پھر عید کپور منا رہے ہیں اور فلسطینیوں کی لاشوں اور قتل عام کا جشن مناتے ہوئے فلسطینی قوم کو اپنی رعونت اور دہشت گردی کا پیغام دے رہے ہیں۔
سنہ 1967ء میں مسجد اقصیٰ پر یہودیوں کے غاصبانہ قبضے کے بعد اللہ کے اس عظیم اور بابرکت گھر میں مسلمانوں کا داخلہ روکنے کے لیے طاقت کے استعمال سمیت طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کیے۔ سنہ 1969ء میں مسجد اقصیٰ میں نمازیوںپرحملہ کیا گیا۔ سنہ 1982ء کو مسجد اقصیٰ میں یہودی آباد کاروں نے گھس کر مقدس مقامی کی بے حرمتی کی۔ اسی سال مسجد اقصیٰ کی بنیادوں تلے سرنگیں کھودنے کا مذموم عمل شروع ہوا۔
سنہ 1986ء اور 1987ء کے دوران اسرائیل کی سرکاری سرپرستی میں یہودی انتہا پسندوں کو مسجد اقصیٰ میں براہ راست رسائی کی اجازت دی گئی جس کے بعد یہودی آباد کاروں کے نہ ختم ہونے والے دھاووں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔