امریکا کے بعد اسرائیل نے بھی انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم کے خلاف نفرت آمیز مہم شروع کی ہے۔ ان دونوں ملکوں نے اپنے جرائم کی پردہ پوشی اور انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے حوالے سے دنیا کو آگاہ کرنے کی کوششوں پر ایمنسٹی کو ‘سام دشمن’ قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
اسرائیلی وزیر خارجہ گیبی اشکنازی نے ایک پٹیشن میں انسانی حقوق کی تنظیم ‘ایمنسٹی انٹرنیشنل’ کو سام مخالف گروہ قرار دیتے ہوئے اس پر پابندیاں عاید کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو ایک "اینٹی سیمیٹک” تنظیم قرار دینے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔
درخواست میں اشکنازی پر زور دیا گیا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ "اسرائیل” بھی ایمنسٹی کو سام دشمن تنظیم قرار دے۔
انسانی حقوق کی ایک بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سرگرمیاں بھی اسرائیل میں ایک انتہا پسند بائیں بازو کی تنظیم کے طور پر جاری ہیں۔ گذشتہ ہفتے اس تنظیم نے بھوک ہڑتال پر رہنے والے فلسطینی ماہر الاخراس کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ اس سے پہلے امارات کے ساتھ معاہدے پر تنظیم نے کہا ہے کہ ایک سفارتی معاہدہ بین الاقوامی قانون کے تحت اسرائیل کو اس کے انسانی حقوق کے حوالے سے پابند بنانا چاہیے۔
اسرائیل میں انسانی حقوق گروپ "بتسلیم” کے ڈائریکٹر شائی گلک کے ذریعہ پیش کردہ اس درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ کئی برسوں سے ایمنسٹی انٹرنیشنل ریاست اسرائیل کے بائیکاٹ کے مطالبے کی جدوجہد کی قیادت کر رہی ہے۔
"بتسلیم” تنظیم جو خاص طور پر یہودیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہے کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی ایمنسٹی کی سرگرمیوں پر تحفظات ہیں اور وہ بھی اسے ایک ‘سام دشمن’ تنظیم قرار دینے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔
امریکی اخبار پولیٹیکو نے اطلاع دی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ایمنسٹی انٹرنیشنل ، ہیومن رائٹس واچ اور آکسفیم سمیت انسانی حقوق کے میدان میں کام کرنے والی کچھ نامور این جی اوز کو سامن دشمن قرار دینے پر غور کر رہی ہے۔