بیروت میں قائم ایک تھینک ٹینک ‘الزیتونا اسٹڈیز سینٹراینڈ کنسلٹینسی’ کے محقق پروفیسر ولید عبدالحئی نے حال ہی میں مشرق وسطیٰ کے بدلتے منظر نامے بالخصوص امریکی موقف کی پسپائی اور عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ استوار ہوتے تعلقات کے حوالے سے ایک مقالہ شایع کیا گیا ہے۔”بین الاقوامی پوزیشن میں امریکی موقف کی پسپائی اور عرب اور اسرائیلی اسٹریٹجک آپشنز کا مخمصہ” کے عنوان سے جاری کردہ اس تحقیقی مقالے میں مشرق وسطیٰ میں حالیہ واقعات کے نتیجے میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
محقق پروفیسر عبدالحئی نے سلطنتوں یا بین الاقوامی قطبوں کے عروج و زوال کے مطالعے میں فکری طریقہ کار کے حوالہ جات پیش کرتا ہے اور انھیں "ماضی” اور مستقبل کے طریق کار کے مابین تقسیم کرتا ہے۔
مقالہ نگار کا کہنا ہے کہ تاریخی منھج صہیونی ریاست کی سیاسی حرکیات سے شروع ہوتا ہے جس میں صہیونی ریاست کے آغاز سے اس کے اختتام یا سقوط کو کا جائزہ لیا گیا۔۔ اس میں ان وجوہات کاتعین کیا گیا ہے جنہیں مد نظر رکھ کرمستقبل کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ اس میں اسرائیل کے ماضی اور ماحول میں تاریخی رجحانات کی بنیاد پر اس کی شکل کا تعین کے لیے ہونے والے اقدامات شامل ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر ولید عبدالحیی نے گذشتہ چالیس برسوں میں "امریکی پسپائی” کے رجحان کے طور پر جانے جانے والے نظریات کا جائزہ لیا۔ ان کا کہنا ہے کہ پچھلے چالیس سال کے دوران امریکا کا فلسطین اور اسرائیل کے حوالے سے موقف بہ تدریج تبدیل ہوتے ہوئے پسپائی کی طرف گامزن رہا ہے۔
ڈاکٹر عبدالحئی نے سال 2018ء اور 2019ء کے دوران امریکا اور چین کے طاقت کے توازن کو سامنے رکھتے ہوئے 20 اسٹریٹیجک اشاریوں پر مشتمل ایک جائزہ لیا جسے رواں سال یعنی 2020ء میں ہونے والے اقدامات پر تطبیق دینے کی کوشش کی ہے۔
ان کے اس جائزے میں کہا گیا ہے کہ قوت کے اشاریوں میں امریکا اور چین اگرچہ ایک دوسرے کے قریب ہیں مگر دونوں میں فرق بھی ہے۔ امریکا کی عالمی سطحپر بالادستی میں واشنگٹن کو 19 نکات دیے گئے ہیں۔ جب کہ چینی بالادستی میں بیجنگ کو 16 اشاریے ملتے ہیں۔ اس اعتبار سے امریکا عالمی اثرو نفوذ میں 54 اعشاریہ 3 فی صد اور چین 45 اعشاریہ 7 فی صد پر ہے۔
اسی مناسبت کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوںنے اس نظریے کا یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ چین آہستہ آہستہ بین الاقوامی نظام کے سامنے سب سے آگے بڑھ رہا ہے جبکہ امریکا پسپائی اختیار کرتا جا رہا ہے۔
پروفیسر عبدالحیئ نے پیش گوئی کی کہ امریکی طرز عمل کے مقابلے میں چین دوسرے لوگوں کے مفادات کی خلاف ورزی کم کرے گا۔
دوسری طرف امریکا موجودہ بین الاقوامی ڈھانچے تحفظ کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ چونکہ عرب کی آزادی کی قوتوں کی اسٹریٹجک صف بندی امریکا کے مقابلے میں چین کے ساتھ آسان ہے لہذا عرب آزادی پسند قوتیں امریکا کے بجائے چین کے زیادہ قریب ہوسکتی ہیں۔ اسی پریشانی اور تشویش کے پیش نظر امریکا نے عرب ملکوں کو اسرائیل کے قریب کرکے انہیں اپنی معاونت کی یقین دہانی کرا رہا ہے۔
تاہم کچھ عرب سیاسی حکومتیں اسی صہیونی پیش گوئی میں رہتی ہیں۔ وہ چین کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں لیکن تاریخی طور پر وہ امریکی مفادات سے جڑے ہوئے ہیں۔
امریکی پسپائی کی تحریک کے کچھ حامیوں کا خیال ہے کہ "اسرائیل” نے امریکی پسپائی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی میں "عسکریت پسندی” میں اضافہ اکثر امریکی خیالات کے بجائے اسرائیلی مقاصد کے ذریعہ پیدا ہوا تھا۔ یوں کہہ لیجیے کہ امریکی موقف میں تبدیلی کا عنصر یہودی لابی اور صہیونی لابی کے دبائو یا اثرو رسوخ کا نتیجہ ہے۔ امریکا نے عرب ملکوںمیں موجودہ نظاموں کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کی پالیسی اختیار کی۔ عراق ، شام ، یمن ، لیبیا ، لبنان اور صومالیہ میں امریکا نے حکومت مخالف تحریکوں کو دبانے میں مدد کی جب کہ ایران کے اطراف میں فوجی اڈے قائم کرکے دراصل اسرائیل کو تحفظ دیا ہے۔