منگل کے روز 17 نومبر کو فلسطینی جماعتیں اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ اور تحریک فتح کی قیادت مصر کی میزبانی میں قومی مصالحتی مذاکرات کے لیے قاہرہ میں تھیں کہ اچانک یہ اعلان ہوا کہ فلسطینی اتھارٹی نے چھ ماہ سے تعطل کا شکار اسرائیل کے ساتھ تمام روابط بحال کر دیے ہیں۔
یہ اعلان فلسطینی اتھارٹی کے وزیر برائے شہری امور حسین الشیخ نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ چھ ماہ قبل جس سطح کے تعلقات قائم تھے وہ ایک بار پھر بحال کیے جا رہے ہیں۔
فلسطینی دھڑوں بالخصوص صدر محمودعباس کی جماعت تحریک فتح اور حماس کےدرمیان قربت کی ایک وجہ فلسطینی اتھارٹی کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی معطلی بھی تھی۔ دونوں جماعتوں نے قابض صہیونی ریاست کی توسیع پسندانہ سرگرمیوں کے خلاف متحدہ مزاحمتی محاذ تشکیل دینے اور عوامی سطح پر اسرائیل کے خلاف مزاحمت شروع کرنے پر اتفاق کر لیا تھا مگر رام اللہ اتھارٹی جس میں سب سے زیادہ تحریک فتح کی قیادت کی نمائندگی شامل ہے، نے اسرائیل کے ساتھ روابط بحال کرنے کا اعلان کر کے مصالحتی کوششوں کو وہیں روک دیا ہے۔
ستمبر میں بیروت میں کل جماعتی فلسطین کانفرنس منعقد ہوئی جس میں فلسطینی جماعتوں کے سیکرٹری جنرل کی سطح کی قیادت نے شرکت کی تھی۔ اس کانفرنس میں طے پایا تھا کہ ایک ماہ کے اندر اندر تمام فلسطینی دھڑے ایک متفقہ لائحہ عمل مرتب کریں گے جس کے بعد چھ ماہ میں پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کے لیے تیاری شروع کی جائے گی۔
اس کے لیے فلسطینیوں کی داخلی صف بندی کا قیام اور محاذ آرائی کی سیاست سے اجتناب ضروری تھا بلکہ تمام فلسطینی دھڑوں کو قومی ایشوز پر جماعتی اور گروہی مفادات سے بالا تر ہو کر سوچنا تھا۔
اس سے قبل فلسطینی صدر محمود عباس نے 19 مئی کو امریکا اور اسرائیل کے فلسطینی علاقوں پر قبضے اور غرب اردن کے الحاق کے منصوبے پر بہ طور احتجاج اسرائیل سے ہر سطح پر تعاون اور تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
فلسطینی اتھارٹی کی اسرائیل پر نظریں
فلسطینی تجزیہ نگار اور دانشور ایاد القرا نے مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے اعلان سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی نظریں قومی مصالحت پر نہیں بلکہ قابض دشمن سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے اچانک اسرائیل کے ساتھ تعلقات اور روابط بحال کرنے کا اعلان کر کے فلسطینی مصالحت اور مفاہمت کا عمل ادھورا چھوڑ دیا۔
ایک سوال کے جوب میں انہوںنے کہا کہ مجھے شک ہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل کے ساتھ روابط ختم کرنے کا جو اعلان کیا تھا وہ سچ مچ تھا یہ محض ایک ڈھونگ تھا جس کا مقصد قوم کو بے وقوف بنانا تھا۔ لگتا ہے کہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان غیر اعلانیہ روابط جاری رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی سے فلسطینی مصالحت اور قومی مفاہمت کا عمل بری طرح متاثر ہوگا۔ یہ اعلان ایک ایسے خاص وقت میں کیا گیا جب کہ قاہرہ میں حماس اور فتح نے ایک مفاہمتی معاہدے پر اتفاق کیا تھا۔
ایاد القرا کا مزید کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کو اس اعلان سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ فلسطینی اتھارٹی اور قابض دشمن کے درمیان روابط نہ صرف موجود رہے ہیں بلکہ مزید مضبوط ہوئے ہیں۔ یہ واضح ہوگیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے ساتھ تعلقات اور سیکیورٹی تعاون میں سنجیدہ ہے مگر فلسطینی دھڑوں کے درمیان مصالحت کے حوالے سے وہ بالکل لا پروا اور غیر سنجیدہ ہے۔
انہوںنے کہا کہ اب جب فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل کے ساتھ روابط اور تعاون بحال کرنے کا اعلان کیا ہے تو اس کے نتیجے میں غرب اردن میں سیاسی گرفتاریوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوجائے گا اور بیروت میں ستمبر میں ہونے والی کانفرنس کے فیصلے ایک بار پھر ہوا میں تحلیل ہوجائیں گے۔
قوم کے لیے باعث شرمندگی
فلسطینی دانشوراور سیاسی امور کے ماہر ابراہیم المدھون نے فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ تعاون بحال کرنے کے اعلان کو قوم کے لیے شرمندگی کا باعث قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی ایک بار پھر اسرائیل کی گود میںجا بیٹھی ہے اور یہ غیر متوقع ہرگز نہیں۔ اس اعلان نے پوری قوم کو شرمندہ کیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے المدھون نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کے اس اعلان سے اسرائیل کی جانب سے یہ پیغام جائے گا کہ رام اللہ اتھارٹی اور تل ابیب کے درمیان سکیورٹی کے شعبے میں تعاون موجود تھا اور وہ سرے سے ختم ہی نہیں ہوا بلکہ وہ خفیہ طورپر جاری رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ فلسطینی اتھارٹی نے تمام فلسطینی دھڑوں میں مصالحت کے لیے دروازہ کھلا رکھا ہے مگر اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کو یہ پیغام دے گا کہ وہ سیکیورٹی تعاون یا قومی مصالحت میں سے کسی ایک آپشن پر عمل کرے۔
المدھون کا مزید کہنا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی کو چاہیے کہ وہ قومی مصالحتی عمل کو آگے بڑھانے کا موقع دے تاکہ غرب اردن کے الحاق اور القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنائے جانے کی سازشوں کو روکا جاسکے۔
انہوں مزید کہا کہ اب اگر فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات ہوتےہیں تو اسرائیل پہلے یہ کہے گا کہ اتھارٹی القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرے اور غرب اردن کے علاقے اسرائیل میں شامل کرے۔
المدھون نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی نے پوری قوم کو ساتھ لے کرچلنے کے بجائے مخصوص افراد کے افکار اور نظریات کو سامنے رکھتے ہوئے اسرائیل کے دبائو میں آکر ایسا کام کیا ہے جس نے پوری قوم کو خفت میں ڈال دیا ہے۔