شنبه 16/نوامبر/2024

نیتن یاھو اور بن سلمان ملاقات، سعودی عرب اور اسرائیل کے مفادات

منگل 24-نومبر-2020

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ایک خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی کہ اتوار کے روز اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے سعودی عرب کا خفیہ دورہ کیا۔ اس دورے میں انہوں‌ نے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔ اس موقع پر اسرائیل کے بدنام زمانہ خفیہ ادارے ‘موساد’ کا چیف اور امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو بھی موجود تھا۔

بلاشبہ اسرائیلی وزیراعظم کا سعودی عرب کا خفیہ دورہ اور ولی عہد سے ملاقات ایک بڑی اور عالمی خبر ہے اور اس خبر کے سامنے آنے کے بعد اس کے حوالے سے رد عمل فطری ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم کا دورہ سعودی عرب کوئی ان ہونی بات نہیں ہوسکتی کیونکہ اس سے قبل امریکا متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کرا چکا ہے جب کہ حال ہی میں سوڈان نے بھی ان ملکوں کی پیروی کرتے ہوئے صہیونی ریاست کےساتھ سیاسی اور اقتصادی تعلقات استوار کرنے کا اعلان کیا ہے۔

یہ بھی کوئی حیرت کی بات نہیں کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان خفیہ مراسم قائم ہیں۔ اگرچہ سرکاری سطح پر سعودی عرب نے صہیونی ریاست کے ساتھ روابط کی ہمیشہ تردید کی ہے مگر حقائق اس کے برعکس ہیں۔

سعودی عرب کے سابق انٹیلی جنس چیف اور سابق سیکیورٹی میشر شہزادہ بندر بن سلطان نے حال ہی میں ایک انٹرویو دیا جس میں انہوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے رائے عامہ ہموار کی۔

اس وقت سعودی عرب داخلی سیاسی بحرانوں کا شکار ہے اور خطے میں اپنی تنہائی کم کرنے کے لیے کوششیں‌ کر رہا ہے۔ خطے میں سعودی عرب کی پالیسی مسلمان ممالک کے ساتھ دوستانہ کے بجائے معاندانہ ہے۔ لبنان، قطر، یمن، ترکی اور ایران کے حوالے سے سعودی عرب کی پالیسی مایوس کن ہے جب کہ دوسری طرف امریکا کے زیادہ قریب سمجھے جانے والے ملکوں میں ابو ظبی اور بحرین کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد لگتا ہے کہ سعودی عرب بھی جلد ہی دوستی ٹرین میں سوار ہونے جا رہا ہے۔

تاہم اسرائیل کے لیے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے قیام کا بنیادی محرک سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ہوسکتا ہے۔ بن سلمان امریکا میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی شکست سے ایک بڑے عالمی اتحادی کو کھونے کے بعد خطے میں اسرائیل کو اپنے ایک سہارے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ انہیں ایران اور دوسرے ملکوں کے حوالے سے جو توقعات ٹرمپ سے وابستہ تھیں وہ جوبائیڈن سے نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا معاملہ بھی ان کے لیے ایک ڈرائونے خواب سے کم نہیں۔ سعودی عرب میں ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا معاملہ، یمن میں چھیڑی گئی بے مقصد اور مہلک جنگ اور قتل عام کی پالیسی مشکل میں پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔

دوسرے الفاظ میں بن سلمان کو امریکا میں ہونے والی سیاسی تبدیلی سے اپنا اقتدار بھی خطرے میں پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایسے میں نیتن یا ہی بن سلمان کو اقتدار کی بقا کی ضمانت دینے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اگر سعودی عرب بن سلمان کے کہنے پر اسرائیل کو تسلیم کرلیتا ہے تو اس کے نتیجے میں امریکا کی یہودی اور صہیونی لابی کی سعودی عرب کے ساتھ ہمدردیاں بڑھ سکتی ہیں۔ اگر محمد بن سلمان کو اقتدار سے ہٹانے کی امریکا میں کوئی مہم شروع ہوتی ہے تو نیتن یاھو اس کی راہ روک سکتے ہیں اور اس کے لیے امریکا کی یہودی لابی کو متحرک کر سکتے ہیں۔

جہاں تک ایران کا معاملہ ہے سعودی عرب ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی تمام تر کوششوں میں ناکام رہا ہے۔ تاہم امریکا اور اسرائیل کی مدد سے ایران پر اقتصادی پابندیوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اب بھی اگر اسرائیل ایران پر حملہ کرتا ہے توسعودی عرب صہیونی ریاست کی پشت پر کھڑی ہوگی۔

نیتن یاھو کے دورہ سعودی عرب کے سیاسی طور پر نیتن یاھو کو بھی سیاسی فواید حاصل ہوں گے۔ یہ نیتن یاھو ہی نہیں جن کے عہد میں تین عرب ملکوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا اور صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات استوار کیے۔

اسرائیل کے علاقائی سطح پر تزویراتی مقاصد میں ایک مقصد عرب ملکوں کےدرمیان تفریق اور انتشار پیدا کرنا بھی ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے والے ممالک کو عالم اسلام کی اجتماعی قیادت کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔ یوں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاھو اور امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ مل کر عرب ملکوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کے بیج بونے میں بھی پیش پیش رہے ہیں۔ جیسے جیسے اسرائیل خطے میں عرب ملکوں کو اپنے ساتھ ملا رہا ہے ایسے ہی ایران کے گرد دائرہ تنگ ہو رہا ہے۔ اگر سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرلیتا ہے کہ یہ ممالک اسرائیل کے ساتھ مل کر نئے امریکی صدر پرایران کےخلاف فوجی کارروائی کے لیے دبائو بڑھائیں ‌گے۔

نیتن یاھو کا دورہ سعودی عرب اسرائیل کو مزید آگے بڑھنے اور عرب ممالک میں اپنے پنجے گاڑنے کا موقع فراہم کرے گی۔

اگر اسرائیل اور سعودی عرب ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں تو دوسری طرف فلسطینیوں کے حقوق کے علم برداروں کو بھی آنے والے خطرات کا سد باب کرنے کے لیے ایک فورم پر متحد ہونا ہوگا۔

مختصر لنک:

کاپی