جمعه 15/نوامبر/2024

محسن فخری زادہ کے قتل میں امریکا اور اسرائیل کے ملوث ہونے کا شبہ کیوں؟

اتوار 29-نومبر-2020

جمعہ کے روز ایران کے جوہری پروگرام کے سب سے بڑے اور سینیر سائنسدان محسن فخری زادہ کو نامعلوم مسلح افراد نےبم حملے اور فائرنگ کرکےدن دیہاڑے قتل کردیا۔ ڈاکٹر فخری ایرانی وزارت دفاع کےریسرچ آرگنائزیشن کےچیئرمین تھے اور انہیں ایرانی جوہری پروگرام کا ‘باپ’ کہا جا
تھا۔

محسن فخری زادہ کے قتل کی خبر نشرہوتے ہی سب سے بڑا اورپہلا سوال یہی تھا کہ یہ قتل کس نے کیا ہے۔ ایران کے دارالحکومت تہران میں ایک مصروف شاہراہ پر ایران کی ایک انتہائی اہم پروفائل والی شخصیت کو جان سے مارنے میں‌کون ملوث ہوسکتا ہے؟۔ ایرامی قیادت نے عوام کو زیادہ دیرتک اس حوالے سے پریشان نہیں رہنے دیا اور واضح‌کردیا ہے کہ اس مجرمانہ واردات میں امریکا اور اسرائیل ملوث ہیں۔

اسرائیل میں اس خبر کی مقبولیت
ایرانی جوہری سائنسدان کےقتل کو جہاں ایران بالخصوص تہران کے جوہری پروگرام کے لیے ایک بڑا نقصان قرار دیا جا رہا ہے وہیں حسب توقع اسرائیلی میڈیا نے بھی اس خبر کوغیرمعمولی اہمیت دی اور اس پر جی بھر کر تبصرہ آرائی کی گئی اور ایرانی سائنسدان کےقتل کو اسرائیل کے لیے خوشی کا موقع اور مسرت کا دن قرار دیا۔
یہاں تک کہ اسرائیلی وزیراعظم  بنجمن نیتن یاھو بھی اس واقعے پربول پڑے اور کہا کہ ‘ اس ہفتے کہاں کیا ہوا اس کے میں انکشاف کرنا ہرایک کےبس کی بات نہیں’۔

عبرانی اخبار’معاریو’ کے مطابق اسرائیلی فوجی اور انٹیلی جنس ایڈمسٹریشن گذشتہ برسوں کےدوران ایرانی سائنسدان محسن فخری زادہ کے تعاقب میں رہی ہیں۔
دو سال قبل اسرائیلی میڈیا پر نشر ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ فخری زادہ ایران کے ایٹمی ہتھیاروں کے خالق بن سکتے ہیں۔

موساد کے سابق انٹیلی جنس شعبے کے چیف امنون سوفرین نے فخری زادہ کے قتل پر تبصرہ کرتےہوئے کہا کہا مقتول ایرانی سائنسدان ایران کے جوہری ہتھیاروں اور جوہری پروگرام کوآگے بڑھانے کے بانی تھے اور وہ ان معدودے چند شخصیات میں سے ایک تھے جو  ایران کے جوہری پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکتے ہیں۔

سوفرین نے ایرانی جوہری سائنسدان کےقتل کی کوششوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ان کے روز مرہ کے معمولات کے بارے میں جان کاری حاصل کرنا ضروری تھا۔ ہمیں ان تک پہنچنے کے لیے کوئی کمزور تلاش کرنا تھی اور ایسا موقع کبھی کبھار ہی آتا ہے ہمیشہ نہیں ملا کرتا۔
سابق اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے کہا کہ میں اس شخص کو بہت اچھی طرح جانتا تھا۔ اگر میری اس کے ساتھ سڑک پرملاقات ہوتی میں پھربھی اسے پہچان لیتا۔ اولمرٹ نے دعویٰ کیا کہ ایرانی سائنسدان کو کئی سال سے کسی قسم کا تحفظ حاصل نہیں تھا اور بالیقین اسے مستقبل میں بھی ایسا نہ ہوتا۔

اسرائیلی ملٹری انٹیلی جنس ریسرچ کے سابق چیف یوس کوبر فاسر نے ایرانی سائنسدان کے قتل پر تبصرہ کرتے ہوئے اس طرح کی کارروائی صرف امریکا اور اسرائیل ہی انجام دےسکتے ہیں۔ جہاں تک اس قتل کی زمانی اہمیت ہے تو اسے ٹرمپ کےاقتدار کے خاتمے کا بھی اشارہ ہے۔ ٹرمپ نے جاتے جاتے ایران کو ایک کاری ضرب لگا کراسرائیل کو خوش کردیا ہے۔

ٹرمپ کے عہد کا اختتام
فلسطینی تجزیہ نگار حمزہ ابو شنب کا کہنا ہے کہ ایرانی سائنسدان کو ایک ایسے وقت میں قتل کیا گیا ہے جب حالیہ ایام میں امریکی سیاسی اور ابلاغی حلقوں میں یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ امریکا ایران کےخلاف فوجی کارروائی کی منصوبہ بندی بنا رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پرحملے کا منصوبہ بنایا تھا تاہم امریکی عہدیداروں اور ان کے مشیروں نے اس کی حمایت نہیں کی۔

ابو شنب کا کہنا تھا کہ ایرانی سائنسدان کے قتل کو امریکی وزیر دفاع کی تبدیلی کے ساتھ بھی جوڑنا چاہیے۔ کیونکہ برطرف امریکی وزیر دفاع نے ایران پرحملے کی مخالفت کی تھی۔ اسی دوران امریکی وزیر خارکہ مائیک پومپیو نے مشرق وسطیٰ کے ممالک کا دورہ کیا تھا۔
عن قریب سبکدوش ہونے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ چند برسوں کے دوران ایران کا گھیرائو کرنے اور تہران کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ ایران پر بدترین اقتصادی پابندیوں کے نفاذ میں ٹرمپ نے ماضی کےتمام ریکارڈ توڑ دیے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ آنے والی حکومت نے ان کی پالیسیوں پرعمل درآمد جاری رکھا تو وائٹ ہائوس ان سے فائدہ اٹھائے گا۔

ابو شنب کا کہنا ہے کہ حالیہ عرصے کے دوران اسرائیلی عہدیداروں کویہ کہتے سنا گیا ہے کہ حکومت نے فوج کو ہدایت دی ہے کہ امریکا کی طرف سے ایران کے خلاف اگر فوجی کارروائی کی جاتی ہے تو اسے کسی بھی ممکنہ جوابی کارروائی کے خلاف خود کوتیار رکھنا چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ ایرانی سائنسدان کے قتل کے بعد امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی بڑھے گی مگر اس کے ساتھ ساتھ  تہران اور واشنگٹن کے درمیان فوجی محاذ آرائی کا امکان بھی موجود ہے۔

مختصر لنک:

کاپی