فلسطین کے ہزاروں خاندان ایسے ہیں جن کے پیارے سال ہا سال سے صہیونی زندانوں میں قید ہیں۔ قیدی فلسطینیوں اور ان کے اہل خانہ کے درمیان رہائی سے قبل ان کی ملاقات کا موقع شاذ نادر ہی ملتا ہے۔ اسرائیلی ریاست قیدیوں اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ملاقات کے معاملے میں بھی بین الاقوامی انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کی مرتکب ہو رہی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی کوششوں کےباوجود بہت کم ایسے ہوتا ہے کہ کوئی فلسطینی قیدی اپنے خاندان کے کسی فرد سے ملاقات کرسکے۔ اگر کسی کو ملاقات کی اجازت دی بھی جاتی ہے تو وہ بھی ایک طویل تو ہین آمیز اور اذیت ناک سفر کے بعد ملاقات کا موقع ملتا ہے۔
ملاقات کے لیے آنے والے فلسطینیوں کو گھر سے جیل تک کئی مقامات پر فوجی چوکیوں پر تشدد، ہراسانی، تفتیش اور تلاشی جیسے ہتھکنڈوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیل پہچنے کے بعد قیدیوں اور ان کے اہل خانہ کے درمیان ملاقات سے قبل ملاقاتیوں سے طویل انتظار کرایا جاتا ہے۔ طویل انتظار کے بعد کسی قیدی کے اہل خانہ سے ملاقات اس کی خوش قسمتی ہوتی ہے ورنہ ملاقات کے لیے آنےوالوں کو سوائے اذیت اٹھانے اور توہین آمیز سفر کے کچھ نہیں ملتا۔
باپ اگر جیل میں قید ہو تو بیٹے کو اس سے ملاقات کی اجازت نہیں دی جاتی۔ بیوی کو ملنے سے روکا جاتا ہے۔ باپ کو اپنے اسیر بیٹے سے ملنے کا موقع نہیں ملتا۔ بھائیوں کو اپنے اسیر بھائیوں سے دور رکھا جاتا ہے۔ کئی نوجوان بڑھاپے میں پہنچ جاتے ہیں مگر صہیونی ریاست کے جیلر انہیں ان کے ماں باپ، بہن بھائیوں، بچوں اور اہل خانہ سے ملنے نہیں دیا جاتا۔
اگرچہ اسرائیلی جیل میں قید ہر فلسطینی کی ایک ہی جیسی کہانی ہے مگر تازہ تکلیف دہ اور اذیت ناک کہانی یاسر ذیاد الصوص اور اس کےوالد کی ہے۔
یاسرکی عمر اس وقت 20 سال ہے مگر جب اس کے والد کو گرفتار کیا گیا تو اس وقت یاسر کی عمر صرف تین سال تھی۔
اس دوران زیادہ کو بھی گرفتار کیا گیا۔ حال ہی میں اسے رہا کیا گیا جس کے بعد وہ شمال مغربی رام اللہ کے علاقے ابو شخیدم میں پہنچا۔ اسے مسلسل 22 ماہ تک پابند سلاسل رکھا۔ اس دوران اس کی ایک آدھ بار اپنے اسیر والد زیاد الصوص سے جیل مین ملاقات کی۔ وہ 24 دسمبر 2003ء کو گرفتار کیےگئے اور انہیں جیل میں ڈالا گیا۔
یاسر نے بتایا کہ میں اپنے والد سے جیل میں ملاتو انہوں نے مجھے گود میں بٹھا لیا۔ میں اس وقت کے جذبات کو بیان نہیں کر سکتا۔
یاسر کے والد کو تا حیات عمر قید کا سامنا ہے۔ ایسا ہی واقعہ ایک سابق اسیر محمود ابو رموز کا ہے۔ اسے پانچ سال قبل حراست میں لیا گیا تھا۔ اس نے بتایا کہ ہم چھ بھائی ہیں۔ ہماری جیل سے باہر ملاقات نہیں ہوئی بلکہ ہم جیل میں ایک ساتھ اکٹھے ہوگئے۔
اس نے بتایا کہ میرے بھائی عطا، محاذ، ثائر محمد، ابراہیم اور وہ خود محمود ابو رموز کو سنہ 2011ء کو رہا کیا گیا تھا مگر چند سال قبل قابض فوج نے انہیں دوبارہ حراست میں لے لیا۔