چهارشنبه 30/آوریل/2025

بیت المقدس میں‌تاریخی مسجد کی بے حرمتی کا ذمہ دار کون؟

منگل 29-دسمبر-2020

حال ہی میں فلسطین کےمقبوضہ بیت المقدس میں ایک مسجد میں ایک ایسا شرمناک واقعہ پیش آیا جس نے اہل اسلام کے سر شرم سے جھکا دیے ہیں۔ فلسطین میں یہودی شرپسنوں کے ہاتھوں مساجد اور مقامات مقدسہ کی بے حرمتی تو معمول کی بات ہے مگر یہاں معاملہ مختلف ہے۔ مسجد کی بے حرمتی کے مرتکب یہودی اور غیر مسلم نہیں بلکہ نام نہاد مسلمان ہیں‌۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق مشرقی بیت المقدس میں مسجد اور مقام موسیٰ علیہ السلام میں ایک تفریحی تقریب کی آڑ میں وہاں پر شراب نوشی کی گئی اور تقریب میں شریک دین بیزار عناصر نے رقص بھی کیا۔ خیال رہے کہ مسجد موسیٰ علیہ السلام اریحا شہر اور القدس کی سرحد پر واقع ہے۔

بدقستمی سے یہ تقریب فلسطینی اتھارٹی کے حکام کی طرف سے باقاعدہ سرکاری منظوری کے بعد منعقد کی گئی۔

عوام کے شدید غم وغصے کے بعد فلسطینی اتھارٹی کے وزیراعظم محمد اشتیہ نے اس واقعے کی انکوائری کے لیے کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کمیٹی مسجد میں ہونے والی غیراخلاقی حرکت کی براہ راست اور فوری تحقیقات کرے گی اور اس میں ملوث عناصر کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

فلسطینی اتھارٹی کی وزارت سیاحت کی جانب سے اس مجرمانہ واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ وزارت سیاحت نے نائو و نوش اور رقص ابلیس کی اس محل کی ذمہ داری فلسطینی وزارت اوقاف پرعاید کی ہے۔ خیال رہے کہ فلسطینی وزارت اوقاف کا قلم دان وزیراعظم محمد اشتیہ کے پاس ہے۔ وزارت سیاحت کا کہنا ہے کہ مسجد موسیٰ اور مقام موسیٰ علیہ السلام میں تفریحی مجلس کے انعقاد کی اجازت وزارت اوقاف اور مذہبی امور کی طرف سے دی گئی تھی۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق یہ اسکینڈل اس وقت سامنے آیا جب سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی۔ اس میں کچھ لوگوں کو مسجد موسیٰ علیہ السلام میں رقصاں دیکھا جاسکتا ہے۔ ویڈیو سامنے آتے ہی عوام میں شدید غم وغصے کی لہر دوڑ گئی اور شہری شکایت لے کر وزارت اوقاف کے پاس گئے۔ کچھ لوگ جنہوں‌نے اس تقریب کو دیکھا انہوں‌نے موقعے پر جا کر مسجد کی بے حرمتی پرمبنی اس مجرمانہ حرکت کو روکنے کی کوشش کی۔

ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کچھ سرپھر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں، نیم برہنہ لباس میں مسجد میں جمع ہوئے جہاں انہوں نے شراب نوشی کی اور ڈانس کیا۔

فلسطینی اتھارٹی کےچیف جسٹس محمود الھباش نے مجھے مشرقی بیت المقدس میں مسجد موسیٰ علیہ السلام کے مقام پرپیش آنے والے مجرمانہ واقعے پرعوامی رد عمل کا احساس ہے۔ میں ابھی تک یہ نہیں جان سکا کہ اس مجرمانہ واقعے کا کون ذمہ دار ہے۔ جو بھی ہوا اسے اس کی حرکت کی سخت سزا دی جائے گی۔ یہ ناقابل قبول اور شرمناک ہے۔ یہ اللہ کے دین اور اللہ کے گھر کی کھلم کھلا توہین ہے۔

 خاتون صحافیہ کریسٹن ریناوی نے فیس بک پر پوسٹ کردہ اپنے صفحے پر لکھا کہ مسجد موسیٰ کی بے حرمتی ایک اشتعال انگیز حرکت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مقدس مذہبی مقام میں حیا باختہ تقریب تمام محب وطن فلسطینی مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے ناقابل قبول ہے۔

مختصر لنک:

کاپی