جمعه 15/نوامبر/2024

اسرائیل کے ساتھ دوستی اور بائیکاٹ کی متوازی مہمات

بدھ 30-دسمبر-2020

سال 2020ء کو اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک کی دوستی کی اعلانیہ مہم کا سال قرار دیا جائے گا۔ ایک طرف صہیونی دشمن کے ساتھ دوستانہ مراسم کے قیام کی مہمات ہیں اور دوسری طرف عالمی سطح پر اسرائیل کے معاشی ، سیاسی اور سفارتی بائیکاٹ کی تحریکیں چل رہی ہیں۔

مگر اسرائیلی ریاست کے بائیکاٹ کی مہمات خار دار کانٹوں سے بھری ہوئی ہیں۔ پوری دنیا میں اسرائیلی ریاست نے خود کو ایک ایسے ملک کے طور پر متعارف کرا رکھا ہے جو خود کو قانون سے بالاتر سمجھتا ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستی ہی کا مرتکب نہیں ہو رہا ہے بلکہ بلکہ کھلے عام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔

سنہ 2005ء میں ایک بین الاقوامی تحریک قائم کی گئی۔ اس تحریک کے نام کا مخفف ‘بی ڈی ایس’ ہے۔ یہ تحریک اسرائیل کے بائیکاٹ، سرمایہ کاری واپس لینے اور صہیونی ریاست پر پابندیوں کے نفاذ کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس تحریک کو انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی حمایت حاصل ہے تاہم جو ممالک اسرائیل کے ساتھ دوستانہ مراسم رکھتے ہیں وہ اپنے ہاں کے انسانی حقوق گروپوں کو اسرائیل کی مخالفت کے لیے کھل کر میدان عمل میں نہیں آنے دے رہے۔ یہ تحریک دنیا بھر میں ثقافتی، اقتصادی، تعلیمی، سیاسی، سفارتی اور کئی دوسرے شعبوں میں اسرائیل کے ہاتھوں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

عرب ممالک کی اسرائیل کے ساتھ دوستی کی مہم میں متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور اب مراکش شامل ہوچکا ہے مگر اس کے باوجود بی ڈی ایس تحریک اپنا مشن جاری رکھے ہوئے ہے۔ اگرچہ ہماری اس تحریک کو بین الاقوامی سطح پر دبائو کا بھی سامنا ہے اور اسرائیلی دشمن تو ایک چے شدہ منصوبے کے تحت بائیکاٹ تحریک کو نشانہ بنا رہا ہے۔

اسرائیل ‘بی ڈی ایس’ کی سرگرمیوں کو سام دشمن قرار دینے کی کوشش کررہا ہے۔ اسرائیل کو یہ تکلیف ہےکہ بائیکاٹ تحریک فلسطین میں یہودی آباد کاری کو بین الاقوامی سطح پر عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی قرار دینے کی کامیاب مہم چلا رہی ہے۔

سنہ 2005ء میں بی ڈی ایس تحریک چند فلسطینیوں‌نے شروع کی۔ سنہ 2007ء میں اس میں دانشور بھی شامل ہوگئے۔ اس کے بعد یہ ایک سول سوسائٹی کی تنظیم بن گئی جس میں فلسطینی سیاسی جماعتوں کے ارکان، دانشور اور دیگر مختلف مکاتب فکر کے افراد شامل ہوگئے۔

بائیکاٹ مہم کے رکن ڈاکٹر حیدر عید نے کہا کہ فلسطینی ماہرین اور دانشوروں نے اسرائیلی ریاست کے بائیکاٹ کے لیے پیمانہ تیار کیا۔

مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں‌نے کہا کہ عرب ممالک میں اسرائیلی ریاست کے ساتھ دوستی کےلیے بھی رضاکارانہ مہمات چل رہی ہیں مگر فلسطینی قوم نے ان تحریکوں کو فلسطینیوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے اور فلسطینیوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ عرب حکومتوں کے اسرائیل کے ساتھ  حالیہ امن معاہدوں کو بھی بائیکاٹ تحریک کی طرف سے نشانہ بنایا گیا ہے۔

ار عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ سفارتی، اقتصادی اور سیاسی تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کیا تاہم ان چاروں ممالک کے عوام ان کی حکومتوں کے ساتھ نہیں ہیں۔

مبصرین عرب ممالک کی اسرائیل کے ساتھ دوستی اور تعلقات استوار کرنے کی مہمات کو ان ممالک کے اصولی اور تاریخی تزویراتی موقف سے انحراف قرا ردیتے ہیں۔

تجزیہ نگار ڈاکٹر جارج جقمان نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 2020ء کے دوران چار عرب ملکوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا اعلان کیا۔ ان اعلانات اور اسرائیل کے ساتھ معاہدوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان ممالک کی حکومتوں اور برسر اقتدار طبقے کو اپنے اقتدار چھن جانے کا خطرہ ہے۔ اسرائیل کو ایک سہارے  کے طورپر استعمال کرنا اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ عرب ممالک داخلی سطح پر کمزور ہیں اور انہیں اندازہ ہے کہ ان کےعوام کی اکثریت ان کے ساتھ نہیں‌ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ امریکا اور اسرائیل کے دبائو میں آگئے ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی