اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ کےسیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ھنیہ اور فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کے درمیان حالیہ ایام میں ہونے والی خط کتابت کے بعد حماس اور فلسطینی حکومت نے قوم کو چھ ماہ کے اندر اندر نیشنل کونسل، صدارتی اور پارلیمانی انتخابات یکے بعد دیگرے کرانے کا مژدہ سنایا ہے۔
گذشتہ کئی ہفتوں سے فلسطینی دھڑوں میں مصالحت کا موسم ابرد آلود رہا ہے۔ قومی مصالحت کی طویل جدو جہد کے بعد ابھی مفاہمت اپنی منزل مقصود تک نہیں پہنچ پائی تھی کہ فلسطینیوں میں اختلافات اس پر ایک بار پھر غالب آگئے۔
حماس کی طرف سے اس سے قبل نے اصرار کیا تھا کہ فلسطین میں انتخابات ایک ہی وقت میں ہونے چاہئیں۔ حماس کا مطالبہ تھا کہ صدارتی، پارلیمانی اور نیشنل کونسل کے انتخابات ایک ساتھ کرائے جائیں۔ مگر حماس نے اپنے موقف میں لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے اب یکے بعد دیگرے انتخابات کرانے کی تجویز مان لی ہے۔ حال ہی میں صدر عباس نے اسماعیل ھنیہ کو مکتوب لکھا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ وہ غیر مشروط طور پر مختلف مراحل میں نیشنل کونسل، صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کرانے کے لیے تیار ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پہلے مرحلے میں پارلیمنٹ کے انتخابات کرائے جائیں گے۔ دوسرے مرحلے میں صدارتی انتخابات ہوں گے اور تیسرے اور آخری مرحلے میں نیشنل کونسل کے ارکان کا چنائو عمل میں لایا جائے گا۔
فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ترکی، قطر، مصر اور روس کی طرف سے یقین دہانی اور ضمانت کے بعد حماس کی قیادت نے انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے اپنے موقف میں لچک دکھائی۔ حماس کی اس لچک کو صدر عباس نے خیر مقدم کے ساتھ قبول کیا ہے۔ اس حوالے سے اردن کی ہاشمی حکومت کی مساعی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
سال 2020ء کے آخر میں فلسطینی دھڑوں میں مصالحت کی گاڑی آگے بڑھی۔ اس کا سفر بیروت اور رام اللہ میں ہونے والی کل جماعتی کانفرنسوں سے ہوا۔ اس کے بعد استنبول میں انتخابات کرائے گئے۔
فلسطینیوں میں مصالحت کے حوالے سے پیش رفت میں متعدد عرب اور مسلمان ممالک کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ گذشتہ مہینوں کے دوران قطر، ترکی، مصر اور روس متحرک رہے ہیں۔ امریکا میں جو بائیڈن کے صدارتی انتخابات میں کامیاب ہونے کے بعد فلسطینی دھڑوں میں مصالحت کی کوششیں مزید تیز ہوگئی تھیں۔
حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ھنیہ کا کہنا ہے کہ وہ چھ ماہ میں انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے کوششیں کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ ان کی جماعت فلسطین کی دوسری قوتوں کے ساتھ ملک میں جامع انتخابات کے انعقاد کے کے لیے بات چیت اور مذاکرات کے لیے تیاری کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں تحریک فتح سمیت دیگر فلسطینی دھڑوں کے ساتھ بھی رابطے شروع کیے گئے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں اسماعیل ھنیہ کا کہنا تھا کہ صدر محمود عباس نے ان کے مکتوب کا جواب دیا ہے جس میں انہوں نے میری تجاویز اور انتخابات کرانے کے مطالبے کا خیر مقدم کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے مصر، ترکی، قطر اور دوسرے ممالک کی قیادت کی طرف سے بھی مکتوبات ملے ہیں جن میں فلسطینی قوم کے ساتھ مکمل یکجہتی کے اظہار کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایک نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ حماس تمام فلسطینی قوتوں کے ساتھ مل کر نئے تاریخی مرحلے میں کامیابی کے ساتھ داخل ہونے اورآگے بڑھنے کے لیے تیار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے فلسطینی جماعتوں کی قیادت کو مکتوبات ارسال کیے جن کے جواب میں مثبت اور حوصلہ افزا جواب دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حماس جلد از جلد فلسطینی قوتوں کے ساتھ بات چیت شروع کرنا چاہتی ہے۔ تاہم بات چیت فلسطینی قوم کے دیرینہ حقوق کے تحفظ کی بنیاد پر ہونے چائیں۔
قبل ازیں صدر محمود عباس نے اسماعیل ھنیہ کی طرف سے لکھے گئے مکتوب میں حماس کی فلسطینی دھڑوں میں مصالحت، جمہوری طریقے سے انتخابات کے انعقاد اور فلسطین میں آزادانہ الیکشن کرانے کی خواہش کا خیر مقدم کیا۔
اسماعیل ھنیہ کی طرف سے یہ مکتوب تحریک فتح کے رہ نما جبریل الرجوب نے صدر محمود عباس تک پہنچایا۔
فلسطینی دانشور مصطفیٰ الصواف نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی دھڑوں میں مصالحت کے حوالے سے نئی پیش رفت کے پیچھے چار ممالک مصر، ترکی، قطر اور روس کی جانب سے دی گئی ضمانت ہے۔ اردن نے بھی فلسطینیوں میں رابطوں کے فروغ کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے۔
انہوںنے کہا کہ صدر محمود عباس نے حالیہ مہینوں کے دوران مختلف ممالک کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران انہوں نے عرب ممالک کی قیادت سے فلسطین کی داخلی سیاسی صورت حال پربات چیت کی اور کہا کہ وہ فلسطین میں چھ ماہ کے دوران انتخابات کرانے کے لیے تیار ہیں۔
دوسری جانب حماس سمیت تمام فلسطینی دھڑے قاہرہ کی میزبانی میں ہونے والے مصالحتی مذاکرات میں طے پائے امور پر عمل درآمد کے لیے تیار ہیں۔
تجزیہ نگار طلال عوکل نے مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے قومی مصالحت کے حوالے سے طے پائے معاہدوں پر عمل درآمد نہیں کیا گیا تاہم اب نئی پیش رفت یہ سامنے آئی ہے کہ فلسطینی دھڑوں اور اتھارٹی کے درمیان انتخابات کےانعقاد کے طریقہ کار پر اتفاق رائے طے پا گیا ہے۔