یکشنبه 04/می/2025

شہید ابو عرام بارے صہیونی فوج کی دروغ گوئی بے نقاب

جمعہ 8-جنوری-2021

اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ 24 سالہ فلسطینی ھارون ابو عرام کو غلطی سے گولیاں مار کر شہید کیا گیا۔ اسرائیلی فوج کو ایسے لگا کہ فلسطینی نوجوان کی وجہ سے فوجیوں کی زندگی خطرے میں ہے۔ محض نام نہاد خطرے کی آڑ میں صہیونی فوجیوں نے ابو عرام کی گردن میں گولیاں ماریں۔ ایک گولی اس کی گردن سے پار ہو کر دوسری طرف سے نکل گئی۔ گولی بہت قریب سے ماری گئی تھی۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق ابو عرام کو اس وقت گولی مار گئی جب وہ اپنے گھر کے باہر کھڑا تھا اور وہ اسرائیلی فوجیوں کو تعمیراتی سامان وہاں سے اٹھانے سے روکنے کی کوشش کررہا تھا۔ یہ واقعہ گذشتہ جمعہ کو الخلیل کے نواحی علاقے یطا میں پیش آیا۔ اسرائیلی فوجیوں نے ابو عرام سے کہا کہ انہیں اپنے گھر میں کسی قسم کی تعمیر کی اجازت نہیں مگر ابو عرام کا کہنا تھا کہ وہ اپنے مکان کی مرمت کاکام کررہے ہیں جس کا انہیں حق حاصل ہے۔

اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا کہ موقعے پر موجود فوجی افسر نے مشتبہ فلسطینی کو گرفتار کرنے کی کوشش کی اور اسے ڈرانے کے لیے ہوائی فائرنگ کی تھی۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ ابو عرام پر گولی نہیں چلائی گئی۔ تاہم غلطی سے گولی اس کی گردن سے پار ہوگئی۔

اسرائیل کی ملٹری پولیس نے اس واقعے کی تحقیقات کیں اور گواہوں، عینی شاہدین کے بیانات کے ساتھ ساتھ طبی دستاویزات بھی حاصل کی گئی ہیں۔

سوشل میڈیا پر اس واقعے کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی جس میں اسرائیلی فوجیوں کو مسافر یطا کے مقام پر فلسطینیوں کی مارپیٹ کرتے اور ایک بجلی جنریٹر ضبط کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ فلسطینی شہری اسرائیلی فوج سے جنریٹر واپس لینے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس دوران قابض فوج اور فلسطینیوں کےدرمیان ہاتھا پائی ہوجاتی ہے اور ایک اسرائیلی فوجی وہاں پر موجود ایک فلسطینی نوجوان ابو عرام کو گولی مار دیتا ہے۔

فلسطینی وزارت صحت کے مطابق فلسطینی نوجوان گولی لگنے سے شدید زخمی ہوجاتا ہے اور اس کی گردن میں گولی لگتی ہے۔ اس کے نتیجے میں اس کے ہاتھ، پائوں مفلوج ہوجاتے ہیں اور ریڑھ کی ہڈی کام کرنا چھوڑی دیتی ہے۔

گھر کے مالک اشرف العمور نے بتایا کہ اسرائیلی فوج کی بھاری نفری اس کے گھر میں داخل ہوئی اور انہوں‌نے مجھے اور گھر میں موجود ایک کم سن بچے کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس کے بعد انہوں نے گھر میں وموجود بجلی جنریٹر غصب کرنے کی کوشش کی۔ جب اس کے پڑوسیوں کو اس ہنگامہ آرائی کا علم ہوا تو فلسطینیوں کی بڑی تعداد وہاں‌جمع ہوگئی۔ اس دوران ھارون ابو عرام اور اس کے خاندان کے افراد بھی آگئے۔ اسرائیلی فوجیوں‌نے انہیں بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔ ھارون کے والد نے بجلی جنریٹر واپس لینے کی کوشش کی تو اسے بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس دوران اسرائیلی فوجیوں‌نے انتہائی قریب سے ابو عرام کو گولی مار دی۔

اشرف العمور نے بتایا کہ اسرائیلی فوج نے ان کے ساتھ سفاکانہ سلوک کیا۔ ہم سب نہتے تھے اور ہمارے درمیان کوئی شخص مسلح نہیں تھا۔ ہمارے پاس پرامن احتجاج کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا اور نہ ہی تشدد کا کوئی طریقہ اپنایا گیا تھا۔

ھارون کے والد نے بتایا کہ جیسے ابو عرام کو گولی لگی تو میں نے چیخ چیخ کر ایمبولینس بلانے کا کہا۔ ایک شہری اپنی کار لے کرآیا تو اسرائیلی فوجیوں‌نے کار کے ٹائروں پر گولیاں مار کر اسے پنکچر کردیا۔

شدید زخمی ہونے والے ابو عرام کے داد نے بتایا کہ اسرائیلی فوج کے اس طرح کےظالمانہ حربوں کا مقصد فلسطینیوں میں‌خوف و ہراس پیدا کر کے انہیں وہاں‌سے ھجرت پر مجبور کرنا ہے۔تاہم اس کا کہنا تھا کہ ہم لوگ ظلم برداشت کریں گے مگر اپنی سرزمین نہیں چھوڑیں‌گے۔

ابو عرام کی شہادت کے واقعے پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں، یورپی یونین اور اقوام متحدہ نے شدید مذمت کرتے ہوئے اس کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

فلسطین میں یورپی ہائی کمیشن کے مطابق ابو عرام کو گولی مارنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ وہ اپنے گھر میں تعمیراتی کام کرنا چاہتا تھا جس سے اسرائیلی فوج کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔

مختصر لنک:

کاپی