جمعه 15/نوامبر/2024

اسرائیل کو سینٹرل کمانڈ میں شامل کرنے کے امریکی فیصلے کے نتائج ومضمرات

منگل 19-جنوری-2021

ایسے وقت میں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے لیے اپنا سامان پیک کر رہے ہیں انہوں نے عرب ممالک کے ساتھ ساتھ قابض "اسرائیل” کو بھی امریکی سنٹرل کمانڈ میں شامل کرنے کا فیصلہ جاری کیا  ہے۔ اس سے قبل یہ فیصلہ عرب ممالک تک محدود تھا۔ اب اس میں اسرائیل کو تسلیم کرنے والے ممالک خاص طور پر شامل ہوگئے ہیں۔

جمعہ کے روز امریکی محکمہ دفاع ‘پینٹاگان’ نے اعلان کیا کہ امریکا نے متحدہ فوجی کمانڈ کے منصوبے میں تبدیلی کی ہے اور "اسرائیل” کو یورپ میں امریکی فوجی کمانڈ کے آپریشن کے علاقے سے سینٹرل کمانڈ میں منتقل کر دیا  جس میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔

قومی سلامتی کے ماہر ابراہیم حبیب کہتے ہیں کہ مریکا دُنیا کو بیس جغرافیائی خطوں میں تقسیم کرتا ہے جس کے ذریعے وہ زمین اور سمندر  کے تمام حصوں کو کنٹرول کرتا ہے۔

انہوں نے "قدس پریس” سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل یورپی قیادت میں شامل تھا۔ سینٹرل کمانڈ جوفلوریڈا میں قائم ہے میں مشرق وسطی اور شمالی افریقہ شامل ہے حتیٰ کہ ایتھوپیا سینٹرل کمانڈ سے وابستہ ہے۔

انہوں نےمزید کہا کہ عرب ممالک سنٹرل کمانڈ میں امریکی تحفظ کا حصہ نہیں تھے  لیکن اسرائیل کے ساتھ امن معاہدوں پر دستخط کرنے کے بعد امریکہ کا مقصد تل ابیب کو مربوط کرنے اور مشترکہ فوجی کمانڈ کے ذریعے اس خطے کا فطری حصہ بنانا ہے۔

نئی امریکی تبدیلیوں کے طول و عرض کے بارے میں ابراہیم حبیب نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ معاملہ کوئی معمولی پیش رفت نہیں‌ بلکہ اس کا مقصد اگلے مرحلے کے جنگ کا اعلان کرنا ہے۔ امریکا اسرائیل اور اپنے اتحادی عرب ممالک کےساتھ مل کر ایران کے خلاف کوئی محاذ کھڑا کر سکتا ہے۔

اس اقدام کے نتیجے میں فلسطینی مزاحمت کے اثرات کے سلسلے میں فلسطینی دانشور نے وضاحت کی فلسطینی مزاحمت کا معاملہ امریکا کے نزدیک اتنا اہم نہیں جتنا کہ اسرائیل کے نزدیک ہے۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ اسرائیل امریکی ایما کے بغیر فلسطینی مزاحمت کے خلاف جنگ کا آغاز نہیں کرسکتا۔ امریکا کو خدشہ ہے کہ اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف مہم جوئی سے خطے میں امریکی اہداف کے لیے مشکلات پیدا کرسکتی ہے اور عرب ممالک جو اس وقت امریکا اور اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں وہ اسرائیل اور امریکا کے خلاف بھی جاسکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس مرحلے میں جب کہ اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات فروغ پذیر ہیں اسرائیل ان سے فائدہ اٹھا کر غزہ کی پٹی میں فلسطینی مزاحمت کے خلاف حملہ آور ہوسکتا ہے۔

تاہم انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی مزاحمت اس مساوات کی حقیقت سے بخوبی واقف ہے  اور اس مرحلے پر علاقائی پشت پناہی نہ ہونے کی  وجہ اسے کسی محاذ آرائی میں جانے کے تیار نہیں ہے۔

ابراہیم حبیب نے اس بات کو رد کردیا کہ  عرب ممالک غزہ کی پٹی پر کسی بھی اسرائیلی اور عرب فوجی اتحاد کے فریم ورک کے تحت کسی بھی ممکنہ جنگ میں حصہ لیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی تحریک مزاحمت حماس’ کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ھنیہ کی طرف سے صدر محمود عباس کو ایک مکتوب میں فلسطین میں مرحلہ وار انتخابات کرانے کی تجویز کو قبول کیا تھا۔ یہ تجویز تسلیم کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ حماس خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا اچھے طریقےسے ادراک رکھتی ہے۔

مختصر لنک:

کاپی