چهارشنبه 30/آوریل/2025

خلیجی ممالک اور اسرائیل میں تعلقات مستحکم نہیں ہوسکے: رپورٹ

منگل 19-جنوری-2021

گذشتہ کچھ عرصے کے دوران عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے اعلانات کے باوجود صہیونی ریاست اور خلیجی ممالک میں دو طرفہ تعلقات مسحکم نہیں ہوسکے ہیں۔

اسرائیلی محکمہ دفاع کے ایک  افسر نے انکشاف کیا  ہے کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین سمیت مختلف خلیجی ممالک کے ساتھ تل ابیب کے تعلقات غیر مستحکم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ عدم استحکام مشرق وسطی کے خطے میں چلنے والی ہواؤں کی سمت بدل سکتے ہیں۔

اسٹرٹیجک ریسرچ برائے بیگن-سادات انسٹی ٹیوٹ  ماہر موردچائی کیدار نےکہا کہ سال 2021ء کا آغاز اسرائیل کے لیے اچھا ثابت نہیں‌ہوا۔ نئے سال کے آغاز پر ہی سعودی عرب اور قطر نے اپنے تین سالہ اختلافات ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک کی طرف سے قطر کا بائیکاٹ ختم کرنا اسرائیل کے لیے پریشانی میں اضافہ کر سکتا ہے۔

اسرائیلی دانشور نے اپنے مضمون میں ‌لکھا کہ سعودی عرب اور قطر کے درمیان معاہدے کو اسرائیل کے لیے دوسرے بحرانوں کا تسلسل سمجھا جانا چاہیے۔ اسرائیل پہلے ہی ایران کے ایک بھاری بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ امریکا میں جوبائیڈن کا صدر بننا، نئی امریکی انتظامیہ کی ایران کےحوالے سے نرم اور لچک دار پالیسی اور ایران کا یورینیم افزودگی کو 20 فی صد تک لے جانا ہمارے لیے بُری خبریں‌ ہیں کیونکہ یورینیم کا یہ وہ تناسب ہے جس سے ایران جوہری بم بنا سکتا ہے۔

کیدار نے کہا کہ یمن اور عراق میں ایران نواز گروپوں سے نمٹںے میں سعودی عرب بری طرح‌ناکام رہا۔ سعودی عرب کو درپیش معاشی بحران بھی خطرناک ہے۔ گذشتہ تین سال کے دوران ایران نے قطر کی بھرپور حمایت جاری رکھی اور سعودی عرب تمام تر کوششوں کے باوجود قطر اور ایران کو ایک دوسرے سے دور نہیں کر سکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایران کی طرف سے خلیجی ممالک میں مفاہمت کے بارے میں‌کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ ایران پہلے سے سعودی عرب اور قطر کے درمیان رابطوں سے بہ خوبی آگاہ تھا۔ اس کی وجہ ایرانی انٹیلی اداروں کی خلیجی ممالک میں‌گہری رسائی اور قطری قیادت کے ساتھ ایران کے قریبی تعلقات ہیں۔ اس سے ظاہرہوتا ہے کہ ایران نے قطر کو سعودی عرب کے ساتھ مصالحت کی اجازت دی ہے۔

مختصر لنک:

کاپی