خانیونس – مرکز اطلاعات فلسطین
وہ جو برسوں تک مظلوموں کی آواز بنا آج خود ایک المناک خبر بن گیا۔ فلسطینی صحافی حسن اصليح، جو میدانِ جنگ سے سچائی کا پیغام دنیا تک پہنچاتے تھے، آخرکار قابض اسرائیلی دشمن کے بزدلانہ اور سفاکانہ حملے کے نشانے پر آ گئے۔ انہیں اس وقت شہید کیا گیا جب وہ خانیونس کے ناصر ہسپتال میں ایک سابقہ حملے میں زخمی ہونے کے بعد زیرِ علاج تھے۔ اس واقعے کو گزرے 37 دن ہو چکے تھے۔
منگل 13 مئی کی صبح جب شہر ابھی خواب میں تھا حسن اصليح کا قلم ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا۔ ان کے مقبول ترین ٹیلیگرام چینل سے خبریں آنا بند ہو گئیں، وہ چینل جس کے سبسکرائبرز کی تعداد 7 لاکھ 50 ہزار سے زائد تھی۔ وہ خود ایک ایسی خبر بن گئے جس میں ان کا وجود ہی ختم کر دیا گیا، بالکل اسی طرح جیسے اس نسل کش جنگ میں اب تک 215 صحافی شہید کیے جا چکے ہیں۔
حسن چلے گئے، مگر ان کی گونج باقی ہے۔ ملبوں سے اٹھتی ان کی آواز، ان کے چہرے پر مسکراہٹ، ان کی فیلڈ رپورٹس میں زندگی کی جھلک، یہ سب آج بھی ہمارے سامنے ہیں۔ وہ ایک ایسے صحافی تھے جنہوں نے اپنے آپ کو مظلوموں کی آواز بنانے کے لیے وقف کر دیا تھا۔ ان کی زندگی کا مقصد تھا کہ دنیا غزہ کے زخموں کو دیکھے، محسوس کرے، اور ان پر سوچے۔
نصف شب کے بعد ان کی آخری رپورٹ جنوبی خانیونس پر اسرائیلی گولہ باری سے متعلق تھی۔ وہ لمحوں میں خود بھی اس تباہی کا حصہ بن چکے تھے، ایک سطر، ایک تصویر، ایک المناک عنوان۔
یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ حسن اصليح کو نشانہ بنایا گیا ہو۔ ان کا شمار ان صحافیوں میں ہوتا تھا جو نہایت مستعد، متحرک، اور باخبر تھے۔ ان کے ذرائع، ان کی رفتار، اور میدان سے لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ کی صلاحیت نے انہیں مقامی و بین الاقوامی میڈیا کا معتبر حوالہ بنا دیا تھا۔ فلسطینی عوام اور دنیا بھر کے عرب ناظرین کے لیے وہ ایک بنیادی ذریعہ تھے، خاص طور پر اس نسل کش جنگ کے دوران ان کے ٹیلیگرام چینل کی مقبولیت کئی عالمی چینلز سے بھی بڑھ گئی تھی۔ شائد یہی وجہ ہےکہ بزدل دشمن ان سے خائف تھا اور ان کی آواز کو اپنی فرعونی طاقت سے بند کرنا چاہتا تھا۔ دشمن کئی بار حسن کو نشانہ بنا چکا تھا۔ شہادت سے ایک ماہ قبل بھی وہ ایسے ہی ایک بزدلانہ حملے میں شدید زخمی ہوگئے تھے، مگر زخمی ہونے کے باوجود وہ اپنا پیشہ وارانہ مشن جاری رکھنے کے لیے پرعزم تھے۔
حسن اصليح 7 اپریل کو اس وقت شدید زخمی ہوئے جب قابض اسرائیل نے ناصر ہسپتال کے قریب صحافیوں کے لیے قائم ایک خیمہ نشانہ بنایا۔ اس حملے میں صحافی حلمی الفقعاوی، نوجوان یوسف الخزندار اور صحافی احمد منصور شہید ہوئے، جبکہ 10 دیگر صحافی بھی زخمی ہوئے تھے۔
اس سے پہلے بھی حسن کو اسرائیلی اداروں اور قابض اسرائیل کے سکیورٹی حلقوں کی جانب سے باقاعدہ دھمکیاں دی جاتی رہیں۔ خاص طور پر "افیخائی سیل” نامی پروپیگنڈہ گروپ انہیں مسلسل نشانہ بناتا رہا۔ ان سب ہتھکنڈوں کے باوجود حسن کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔
ان کے پاس کوئی بلٹ پروف جیکٹ نہیں تھی، ان کا واحد محافظ ان کا کیمرہ اور ان کا اسلحہ سچائی کی طاقت تھی۔ وہ ان ابتدائی صحافیوں میں شامل تھے جنہوں نے خانیونس اور رفح کی تباہ کاریوں کو دنیا تک پہنچایا۔ یہاں تک کہ زخمی ہونے کے باوجود انہوں نے ہسپتال کے بستر سے رپورٹنگ جاری رکھی۔
قابض اسرائیلی فوج نے حسن کے قتل کی ذمہ داری قبول کی اور اسے اس لیے جائز قرار دیا کہ وہ "طوفان الاقصیٰ” کی کارروائی کی کوریج کر رہے تھے۔ یہ جواز نہ صرف اخلاقی طور پر ناقابل قبول ہے بلکہ بین الاقوامی قانون کے سراسر خلاف ہے، جو صحافیوں کو شہری تحفظ فراہم کرتا ہے۔ حسن کا قتل ان حملوں کا تسلسل ہے جو غزہ میں صحافیوں کو خاموش کرنے کے لیے جاری ہیں۔
کیمرے کے پیچھے ایک انسان
حسن اصليح صرف صحافی نہیں تھے۔ وہ ایک حساس دل رکھنے والے انسان تھے، جو لوگوں کے غم و خوشی میں شریک ہوتےاور ان کے دکھوں کو اپنی رپورٹس میں ڈھال کر دنیا کے سامنے پیش کرتے۔ ان کی تصویری کہانیاں صرف خبریں نہیں ہوتیں، وہ چیختی چلاتی سچائیاں ہوتیں جنہیں نظر انداز کرنا ممکن نہ تھا۔
گذشتہ چند برسوں میں ان کی فیلڈ رپورٹنگ نے انہیں سوشل میڈیا پر ایک پہچان دی۔ دنیا بھر میں فلسطینیوں کے ساتھ بڑھتی ہمدردی کے پس منظر میں ان کا چہرہ ایک سچ بولنے والے صحافی کا چہرہ بن چکا تھا۔
ان کے ساتھی اور دوست غم میں ڈوبے الفاظ کے ساتھ انہیں یاد کر رہے ہیں۔ ان کے بقول حسن نہ صرف پیشہ ورانہ طور پر بہترین صحافی تھے بلکہ ہمیشہ میدان میں موجود رہتے اور خطرے کے دل سے انسانیت کا پیغام دنیا تک پہنچاتے۔
بین الاقوامی ردعمل اور مذمت
مقامی و بین الاقوامی صحافتی اداروں، انسانی حقوق کی تنظیموں، اور میڈیا فورمز نے حسن اصليح کے قتل کی شدید مذمت کی ہے۔ انہوں نے اس قتل کو ایک "مکمل جنگی جرم” قرار دیتےہوئے مطالبہ کیا ہے کہ قابض اسرائیل کے ان ذمہ دار قاتلوں اور جنگی مجرموں کے خلاف بین الاقوامی سطح پر تحقیقات اور قانونی کارروائی کی جائے جو صحافیوں اور میڈیا اداروں کو منظم طریقے سے نشانہ بنا رہے ہیں۔
حسن اصليح کی شہادت سے فلسطینی میڈیا ایک ایسی آواز سے محروم ہو گیا ہے جو ملبے، خون اور آنسوؤں کے درمیان سچائی کی تلاش میں مصروف تھی۔ ان کا جسم ہم سے جدا ہو چکا ہے، مگر ان کی لی گئی تصاویر، ان کے کہے ہوئے الفاظ اور ان کے دکھائے گئے مناظر ہمیشہ سچ کے وقار اور صحافت کے تقدس کی علامت رہیں گے۔