سه شنبه 13/می/2025

غزہ میں تباہ کن قحط، اسرائیل امداد روک کر انسانیت کے خلاف جرم کر رہا ہے: حماس

منگل 13-مئی-2025

غزہ – مرکز اطلاعات فلسطین

اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں قحط کی صورتحال انتہائی سنگین ہو چکی ہے، جہاں قابض اسرائیلی ریاست نے خوراک اور ادویات کی فراہمی بند کر کے ایک المناک انسانی المیہ پیدا کر دیا ہے۔

پیر کے روز ٹیلیگرام پر جاری بیان میں حماس نے واضح کیا کہ صرف اقوام متحدہ اور متعلقہ سرکاری ادارے ہی غزہ میں امداد کی تقسیم کے مجاز ہیں۔ قابض اسرائیل یا اس کے نمائندوں کو اس عمل میں کسی قسم کی مداخلت کا کوئی اختیار حاصل نہیں۔

بیان میں اسرائیلی محاصرہ توڑنے اور امدادی قافلوں کی راہ کھولنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ حماس نے زور دیا کہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں فوری طور پر تمام راستے کھولے جائیں اور اسرائیلی مداخلت سے پاک امدادی رسائی کو یقینی بنایا جائے۔ حماس کا کہنا ہے کہ امداد کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنا اسرائیل کی جانب سے جان بوجھ کر قحط اور انسانی تباہی کو بڑھاوا دینے کا واضح ثبوت ہے۔

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی امور (اوچا) نے بھی اس المیے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں 21 لاکھ افراد کی زندگیاں داؤ پر لگ چکی ہیں۔ اوچا کے مطابق 9 ہفتوں سے جاری خوراک کی بندش کے باعث اقوام متحدہ کا امدادی ذخیرہ ختم ہونے کے قریب ہے اور محاصرہ اب تیسرے مہینے میں داخل ہو چکا ہے۔

اسی طرح اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی "اونروا” نے کہا ہے کہ قابض اسرائیل 9 ہفتوں سے ہر قسم کی انسانی، طبی اور تجارتی امداد کو غزہ میں داخل ہونے سے روک رہا ہے، جس کے نتیجے میں غزہ کے عوام ناقابلِ تلافی نقصان سے دوچار ہیں۔

"اونروا "کا کہنا ہے کہ اس کی ہزاروں امدادی گاڑیاں غزہ کی سرحد پر منتظر کھڑی ہیں جبکہ اس کی ٹیمیں وسیع پیمانے پر امداد کی ترسیل کے لیے تیار ہیں، لیکن قابض اسرائیل نے ان کے داخلے پر پابندی لگا رکھی ہے۔

اقوام متحدہ کے سیٹلائٹ امیجنگ پروگرام کی تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غزہ کی 81 فیصد قابلِ کاشت زمین پر فصلیں تباہ ہو چکی ہیں جو کہ اسرائیلی بمباری اور زمین کی ہمواری کے باعث برباد ہوئی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق 2 مارچ 2025ء سے اسرائیل نے تمام غذائی، طبی اور امدادی سامان کی غزہ میں فراہمی مکمل طور پر بند کر دی ہے حالانکہ 22 لاکھ فلسطینی شہری اپنی بقا کے لیے مکمل طور پر انہی امدادی اشیاء پر انحصار کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ 18 مارچ 2025ء کو قابض فوج نے ایک بار پھر غزہ پر جنگ مسلط کر دی، جب کہ 19 جنوری کو ایک جنگ بندی معاہدہ طے پا چکا تھا۔ حماس نے اس معاہدے پر مکمل عمل کیا، لیکن اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے شدت پسند حلقوں کو خوش کرنے کے لیے اس معاہدے کے دوسرے مرحلے پر عمل کرنے سے انکار کر دیا۔

نیتن یاھو صرف پہلے مرحلے کو طول دے کر زیادہ سے زیادہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی چاہتا تھا، جبکہ دوسرا مرحلہ مکمل جنگ بندی اور غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلا پر مبنی تھا۔

قابض اسرائیل، امریکہ کی کھلی سرپرستی میں 7 اکتوبر 2023ء سے اب تک غزہ میں بدترین نسل کشی کر رہا ہے، جس میں اب تک 1 لاکھ 72 ہزار سے زائد افراد شہید و زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے، جبکہ 14 ہزار سے زائد فلسطینی لاپتہ ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی