سه شنبه 13/می/2025

"بھوک ہڈیوں میں اتر چکی، فاقوں سے بلکتے بچوں کو بچانے کا کوئی وسیلہ نہیں” غزہ کی دکھی مائیں

منگل 13-مئی-2025

غزہ – مرکز اطلاعات فلسطین

غزہ کی بےبس مائیں ایک ایسا کرب جھیل رہی ہیں جو لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتا۔ شوہر، بچے، گھر اور عزتِ نفس سب کچھ چھن چکا ہے۔ اب وہ نہ صرف اپنے بچوں کے لیے روٹی کے چند نوالوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں بلکہ اپنے آنسو بھی چھپا رہی ہیں تاکہ ان کے بچے مزید نہ ٹوٹیں۔

قابض اسرائیل کی جانب سے جاری نسل کشی میں اب تک 12 ہزار 400 سے زائد خواتین شہید ہو چکی ہیں، جب کہ 14 ہزار سے زیادہ خواتین بیوہ ہو چکی ہیں۔ غزہ میں 60 ہزار کے قریب حاملہ خواتین ایسی ہیں جو طبی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث جان لیوا خطرے سے دوچار ہیں۔

غزہ کے 90 فیصد سے زائد شہری اپنے گھروں سے بےدخل ہو چکے ہیں، کئی ایک بار نقل مکانی کر چکے ہیں۔ وہ یا تو کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں یا تنگ و تاریک پناہ گاہوں میں، جہاں نہ صاف پانی میسر ہے، نہ غذا، اور نہ ہی دوائیں۔

بے یار و مددگار ایک ماں اور سات بچے

خان یونس کے ایک پناہ گزین خیمے میں، جہاں زندگی کے آثار معدوم ہو چکے ہیں، ام محمد ابو دقہ اپنے سات بچوں کے ساتھ زندگی کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ شوہر اور بیٹے کی شہادت کے بعد وہ خیمے میں مقیم ہیں جہاں نہ دوائیں ہیں، نہ خوراک اور نہ کوئی تحفظ ہے۔

بے بسی کی مجسم تصویر بنی ام محمد کا کہنا ہے کہ”میرے شوہر اور بیٹا جنگ میں شہید ہو گئے۔ بچے زخمی ہیں ،علاج کہیں میسر نہیں، کھانے کو کچھ نہیں۔ آٹا ختم ہو چکا تو میں نے میکرونی پیس کر اس سے روٹی بنائی تاکہ بچوں کی بھوک مٹ جائے”۔

ام محمد کا پیغام "دنیا کی مائیں ہمارے ساتھ کھڑی ہوں، یہ قتل عام رکنا چاہیے۔ محاصرہ ختم ہونا چاہیے اور ہم جیسے خاندانوں کو زندہ رہنے کا حق دیا جائے”۔

بھوک، پیاس اور اذیت میں لپٹا صبر

ایسی ہی ایک اور ماں ام ایمن اپنے شوہر، بچے اور گھر سے محروم ہو چکی ہیں۔ کئی مہینوں سے ایک پھٹے پرانے نائلون کے خیمے میں زندگی کے دن کاٹ رہی ہیں۔

"شوہر، بچہ اور گھر سب کچھ کھو چکی ہوں، اب خیمے میں رہ رہی ہوں جہاں نہ پانی ہے نہ کھانا۔ زندگی اب بوجھ لگتی ہے۔” وہ کہتی ہیں کہ پینے کے پانی کے لیے میلوں کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔

"خیمہ گرمی میں جھلسا دیتا ہے، سردیوں میں جسم سردی سے کانپتا ہے۔ ہم مائیں کچھ نہیں مانگتیں، بس یہ نسل کشی بند ہو، محاصرہ ختم ہو، تاکہ ہم بھی بچوں کو کھلانے کے قابل ہو سکیں”۔

میکرونی پر زندہ بچوں کے خواب

صابرین ابو دقہ جنہوں نے شوہر اور بھائی کو کھو دیا پانچ بچوں کے ساتھ ایک خالی، خستہ حال خیمے میں زندگی گزار رہی ہیں۔

"نہ بسکٹ، نہ جوس، نہ صحت مند خوراک، بس میکرونی سے پیٹ بھرتے ہیں۔ دنیا کے مسلمان اور انسانی حقوق کی تنظیمیں آئیں اور ہمارے بچوں کی حالت زار دیکھیں”۔

ایک اور فلسطینی ماں نےاپنی شناخت ظاہر نہ کرتے ہوئےکہا کہ "شوہر شہید ہو گیا، میں نے بچے کو یتیم جنم دیا۔ نہ آٹا، نہ کھانا، نہ پانی۔ یہ بھوک ہماری ہڈیوں تک اتر چکی ہے”۔

قابض اسرائیل کی نئی درندگی

مارچ کے آغاز میں قابض اسرائیلی فوج نے تمام زمینی گذرگاہیں بند کر دیں، جس سے غذائی و طبی امداد، ایندھن اور ریلیف مکمل طور پر رک گیا۔ جنگ بندی کے معاہدے کے ختم ہونے کے بعد یہ نئی درندگی دوبارہ شروع کر دی گئی۔

ورلڈ بینک کے مطابق غزہ کے 2.4 ملین باشندے اب مکمل طور پر بیرونی امداد کے محتاج ہو چکے ہیں۔

بنجمن نیتن یاھو کی سربراہی میں 7 اکتوبر 2023ء سے قابض اسرائیل کی طرف سے جاری اس نسل کشی میں اب تک 1 لاکھ 72 ہزار سے زائد فلسطینی شہید و زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے، جب کہ 11 ہزار سے زیادہ افراد تاحال لاپتہ ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی