دوشنبه 12/می/2025

انسانی حقوق کی تنظیموں نے غزہ میں امداد کی تقسیم کا امریکی–صہیونی ڈرامہ مسترد کردیا

پیر 12-مئی-2025

غزہ ۔ مرکز اطلاعات فلسطین

مرکز برائے فلسطینی انسانی حقوق نے غزہ میں امداد کی تقسیم کے لیے امریکہ اور قابض اسرائیل کی مشترکہ نئی اسکیم کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اسے فلسطینیوں کے خلاف مسلسل جاری نسل کشی اور محاصرے کی ایک نئی شکل قرار دیا ہے۔

پیر کے روز جاری بیان میں مرکز نے اس نام نہاد "انسانی منصوبے” کو قابض اسرائیلی فوج کے براہِ راست سکیورٹی حصار میں امریکی نجی کمپنیوں کے ذریعے نافذ کیے جانے والے جعلی امدادی ڈرامے سے تعبیر کیا ہے، جس کا مقصد امداد کے نام پر فلسطینیوں کی زندگیوں پر مزید کنٹرول حاصل کرنا ہے۔

مرکز نے اس منصوبے کو بین الاقوامی انسانی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا، جو کہ نہ صرف اقوامِ متحدہ اور انسانی امدادی اداروں کے کردار کو ختم کرنے کی سازش ہے بلکہ خاص طور پر اقوام متحدہ کی ایجنسی "اونروا” کو غزہ سے بے دخل کرنے کی ایک خطرناک کوشش بھی ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ اس مجوزہ اسکیم سے نہ تو غزہ میں بھوک کا تدارک ممکن ہے اور نہ ہی یہ متاثرین کو ریلیف دے سکتی ہے، بلکہ یہ قابض اسرائیل کو بھوک کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی جھوٹی قانونی حیثیت فراہم کرتی ہے۔

منصوبے کے مطابق جنیوا میں حال ہی میں رجسٹرڈ ایک غیر منافع بخش ادارہ Gaza Humanitarian Foundation کے ذریعے امداد کی تقسیم کی ذمہ داری دی گئی ہے، جبکہ رفح کو اس منصوبے کا مرکز بنایا گیا ہے۔ مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق یہ انتخاب دراصل قابض اسرائیلی حکومت کے اس منصوبے سے مطابقت رکھتا ہے جس کے تحت وہ فلسطینیوں کو جبری طور پر جنوبی غزہ میں دھکیل کر وہاں طویل عرصے تک کنٹرول حاصل کرنا چاہتی ہے۔

مرکز نے خبردار کیا کہ اس منصوبے کے ذریعے غزہ سے فلسطینیوں کی جبری ہجرت کی راہ ہموار کی جا رہی ہے، جیسا کہ قابض اسرائیل نے فروری 2025 میں اپنے منصوبے میں واضح کیا تھا۔ یہ اقدام بین الاقوامی انسانی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے، جو کسی بھی مقبوضہ علاقے میں آبادیاتی تبدیلی کی ممانعت کرتا ہے۔

مرکز نے اس حقیقت کی طرف بھی توجہ دلائی کہ غزہ کے دو ملین سے زائد شہری انتہائی انسانی بحران کا سامنا کر رہے ہیں، جب کہ قابض صہیونی ریاست نے 70 دن سے زائد عرصے سے تمام زمینی راستے بند کر رکھے ہیں اور کسی بھی قسم کی انسانی امداد کی آمد پر مکمل پابندی عائد کی ہوئی ہے۔

اقوام متحدہ اور غزہ میں کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیموں نے بھی واضح انداز میں نجی کمپنیوں کے ذریعے امداد کی تقسیم کو مسترد کر دیا ہے، کیونکہ اس سے غیر جانبداری، شفافیت اور برابری جیسے انسانی اصول پامال ہوتے ہیں۔

مرکز نے امریکی–اسرائیلی منصوبے کو جنیوا کنونشنز اور ان کے پروٹوکولز، خاص طور پر پروٹوکول I کی شق 70، کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ امدادی کارروائیاں صرف غیر سیاسی، غیر فوجی، اور غیر جانب دار اداروں کے ذریعے ہی انجام دی جا سکتی ہیں، تاکہ عام شہریوں کو کسی بھی قسم کے خطرے یا بلیک میلنگ سے بچایا جا سکے۔

اسی طرح جنیوا کنونشن IV کی شق 55 اور 59 کی روشنی میں قابض ریاست پر لازم ہے کہ وہ مقبوضہ عوام کے لیے خوراک، دوا اور دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنائے اور امدادی اداروں کو بغیر کسی رکاوٹ کے کام کرنے دے، جبکہ یہ منصوبہ ان تمام اصولوں کی سنگین خلاف ورزی کرتا ہے۔

یہ منصوبہ عالمی عدالت انصاف کی ان عبوری تدابیر کو بھی سبوتاژ کرتا ہے جو جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر کردہ مقدمے کے جواب میں اسرائیل کے خلاف دی گئی تھیں۔ ان تدابیر میں زور دیا گیا تھا کہ قابض ریاست کو نسل کشی سے باز رکھا جائے، جبری نقل مکانی روکی جائے، اور امداد کی آزادانہ فراہمی یقینی بنائی جائے۔

مرکز برائے فلسطینی انسانی حقوق نے اس عزم کا اظہار کیا کہ غزہ میں جان بوجھ کر بھوک، پانی و علاج سے محرومی، اور عام شہریوں کی اجتماعی ہلاکتیں نسل کشی کی مکمل علامات رکھتی ہیں، اور اس پر عالمی برادری کی خاموشی ناقابل معافی ہے۔

مرکز نے عالمی برادری اور اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے فوری مداخلت، قابض اسرائیل پر دباؤ، اور تمام امدادی راستوں کو کھولنے کا مطالبہ کیا، تاکہ انسانی امداد بغیر کسی رکاوٹ، فوجی یا سیاسی مداخلت کے، اقوام متحدہ کی نگرانی میں فوری طور پر پہنچائی جا سکے۔

مرکز نے خبردار کیا کہ صرف زبانی مذمت کافی نہیں، بلکہ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کو چاہیے کہ وہ قابض اسرائیل پر قانونی دباؤ ڈالیں، اونروا کے کردار کا تحفظ کریں اور اس کی امدادی سرگرمیوں کی بحالی کو یقینی بنائیں، کیونکہ یہی واحد ادارہ ہے جو غزہ کے عوام کو غیر جانب دار امداد فراہم کر سکتا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی