لندن – مرکز اطلاعات فلسطین
عالمی ادارہ برائے غذائی تحفظ نے پیر کے روز ایک ہولناک انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کے تمام شہری شدید قحط کے خطرے سے دوچار ہیں، جب کہ پانچ لاکھ سے زائد افراد کو بھوک سے موت کا حقیقی خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ ادارے نے اسے گذشتہ رپورٹ (اکتوبر) کے مقابلے میں ایک سنگین تباہی کی علامت قرار دیا ہے۔
ادارے کے تازہ تجزیے جو یکم اپریل سے 10 مئی 2025 کے دوران کی صورت حال پر مبنی ہے نے ستمبر کے اختتام تک مزید بگڑتی صورتحال کی پیش گوئی کی ہے۔
اسی دن اقوام متحدہ کے سیٹلائٹ تجزیے پر مبنی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ غزہ میں قابلِ کاشت زمین کا 81 فیصد حصہ شدید متاثر ہوا ہے، جہاں فصلوں کی صحت اور پیداوار میں خطرناک حد تک کمی آئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ تباہی قابض اسرائیل کی جانب سے کی گئی بمباری، زمینوں کی بلڈوزنگ اور مسلسل جنگی کارروائیوں کا نتیجہ ہے۔
اسی تسلسل میں اسرائیلی حملوں نے غزہ میں لائیو اسٹاک کی پیداوار کے شعبے کو مکمل طور پر مفلوج کر دیا ہے، جس کے تحت پولٹری، گائے، بھیڑ، دودھ اور انڈوں کی فراہمی مکمل طور پر بند ہو چکی ہے۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی امور (اوچا) نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کے 21 لاکھ شہریوں کی زندگی خطرے میں ہے اور فوری طور پر خوراکی محاصرہ ختم کیا جانا چاہیے، جو پچھلے 9 ہفتوں سے جاری ہے۔
اوچا نے کہا ہے کہ اس کے پاس موجود خوراکی ذخائر ختم ہونے کے قریب ہیں، جبکہ قابض اسرائیل کا محاصرہ اب تیسرے مہینے میں داخل ہو چکا ہے۔
ادھر اقوام متحدہ کی ذیلی ایجنسی "اونروا” نے بتایا ہے کہ اسرائیلی محاصرہ جاری ہے، جس کے تحت تمام انسانی، طبی اور تجارتی امداد کی فراہمی بند کر دی گئی ہے۔
اونروا نے واضح کیا کہ جیسے جیسے محاصرہ طویل ہوتا جا رہا ہے، تباہی کی شدت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور ایسی ناقابلِ تلافی انسانی بربادی جنم لے رہی ہے جس کا ازالہ ممکن نہیں۔
ایجنسی کے مطابق اس کے ہزاروں امدادی ٹرک غزہ میں داخلے کے لیے تیار ہیں اور عملہ ہنگامی توسیعی کارروائیوں کے لیے مستعد ہے، لیکن قابض اسرائیل کی رکاوٹوں کے باعث یہ امداد محصور عوام تک نہیں پہنچ پا رہی۔
18 مارچ 2025ء کو فجر کے وقت قابض اسرائیل نے ایک بار پھر غزہ پر نسل کشی کی جنگ شروع کر دی، جب کہ اس سے قبل جنگ بندی کے دوسرے مرحلے میں داخلے سے انکار کرتے ہوئے اس نے پوری پٹی پر مکمل محاصرہ مسلط کر دیا، جس میں دوا اور غذا کی فراہمی پر بھی پابندی لگا دی گئی۔
حماس نے معاہدے کی تمام شقوں پر عمل کیا مگر بنجمن نیتن یاھو نے محض اس لیے معاہدے کا دوسرا مرحلہ تسلیم نہ کیا تاکہ انتہاپسندوں کو خوش رکھا جا سکے۔ اس کی کوشش صرف پہلے مرحلے کو طول دینا تھی تاکہ زیادہ سے زیادہ اسرائیلی قیدیوں کو بازیاب کرایا جا سکے، جب کہ دوسرا مرحلہ جنگ بندی اور مکمل انخلاء پر مشتمل تھا۔
سات اکتوبر 2023ء سے جاری اس نسل کشی میں امریکہ کی پشت پناہی سے قابض اسرائیل نے اب تک 1 لاکھ 72 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید یا زخمی کیا، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے، جب کہ 14 ہزار سے زائد افراد تاحال لاپتا ہیں۔