غزہ – مرکز اطلاعات فلسطین
اسلامی تحریک مزاحمت ” حماس” نے کہا ہے کہ قابض اسرائیل نے غزہ میں بھوک اور افلاس کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے اجتماعی قتل عام کی سنگین جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے، جب کہ عرب اور اسلامی ممالک کا ردعمل اس تباہی کے حجم کے برابر نہیں۔
اتوار کے روز جاری کردہ اپنے بیان میں حماس نے کہا کہ اسرائیلی قبضے نے ہزاروں امدادی ٹرکوں کو غزہ میں داخل ہونے سے روکے رکھا ہے، جس کے نتیجے میں بچے بھوک سے مر رہے ہیں۔ یہ طرز عمل ایک مکمل اور بھیانک جنگی جرم ہے۔
حماس نے عرب اور اسلامی دنیا کے طرز عمل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان ممالک کی خاموشی اور کمزور ردعمل اس عظیم انسانی المیے اور اسرائیلی فاشسٹ ریات کے ہاتھوں فلسطینیوں کی منظم نسل کشی کی سطح تک نہیں پہنچتی جو غزہ میں جاری ہے۔
2 مارچ سے اب تک قابض اسرائیل نے غزہ کے تمام زمینی راستے بند کر رکھے ہیں، امدادی غذائی سامان، طبی اشیاء اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی ترسیل معطل ہے۔ اسرائیل نے جنگ بندی معاہدے سے بھی راہِ فرار اختیار کر لیا، جس سے فلسطینیوں کی انسانی صورتحال نہایت سنگین ہو چکی ہے۔
اسی سیاق میں حماس نے عالمی برادری سے دوبارہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ بنجمن نیتن یاھو کی جنگی پالیسیوں اور اس کے ہاتھوں بچوں و نہتے شہریوں کے خلاف “بھوک کی جنگ” کے استعمال پر واضح اور مؤثر ردعمل دے۔ حماس کے مطابق دنیا کو چاہیے کہ وہ نیتن یاھو کے سامنے ایک زوردار "نہیں” کا اعلان کرے۔
حماس نے اُن اقوام متحدہ کی تنظیموں کے مؤقف کی تائید کی جو ایسی کسی بھی منصوبہ بندی کو مسترد کر رہی ہیں جس میں انسانی امداد کی تقسیم میں قابض اسرائیلی فوج کا کردار ہو۔
قبل ازیں اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ادارے بھی اس بات کی مخالفت کر چکے ہیں کہ اسرائیلی فوج امدادی سرگرمیوں پر کنٹرول حاصل کرے۔ انہوں نے ایسی کسی بھی کوشش کو “فلاحی امداد کا عسکری استعمال” قرار دیا ہے۔