دوشنبه 12/می/2025

فلسطینی اتھارٹی کا اسیران کے معاشی حقوق پر نیا ڈاکہ، وظائف بند، اہل خانہ میں شدید غم و غصہ کی لہر

پیر 12-مئی-2025

غرب اردن۔ مرکز اطلاعات فلسطین

فلسطینی اتھارٹی نے مشکلات سے دوچار فلسطینی اسیران کے خاندانوں کی سرکاری کفالت ختم کرتے ہوئے ان کے معاشی حقوق پر ایک نیا ڈاکہ ڈالا ہے جس کی فلسطینی حلقوں کی طرف سے شدید الفاظ میں مذمت کی جا رہی ہے۔قابض اسرائیل کی جیلوں میں قید فلسطینی اسیران اور ان کے اہل خانہ کو دھچکا اس وقت لگا جب فلسطینی اتھارٹی نے بڑی تعداد میں اسیران، اسیرات اور ان کے رہا شدہ رشتہ داروں کے مالی وظائف بند کر دیے۔

ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ ایک مشترکہ کمیٹی کی سفارش پر کیا گیا جس میں فلسطینی اتھارٹی کے مختلف اداروں اور وزارتِ خزانہ کے نمائندے شامل تھے۔ تمام متاثرہ افراد کی فہرست اسیران و محرو مین امور کی کمیٹی نے فراہم کی۔

معلومات کے مطابق یہ اقدام وزارت خزانہ نے سکیورٹی اداروں کے ساتھ باہمی مشاورت سے کیا۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آنے والے مہینوں میں مزید اسیران اور رہائی پانے والے فلسطینیوں پر بھی یہ کٹوتی لاگو ہو سکتی ہے۔

یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بیشتر اسیران کے خاندان شدید معاشی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔

شہداء، اسیران اور زخمیوں کے اہل خانہ کا ردعمل

اسیران، شہداء اور زخمیوں کے اہل خانہ نے معاشی امداد کے لیے بنائی گئی "سماجی جانچ فارم” کو پُر کرنے سے انکار کر دیا ہے جو صدر محمود عباس کی جانب سے جاری اس متنازع فیصلے کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔

ان خاندانوں نے ایک بیان میں کہا کہ صدر عباس کا یہ فیصلہ فلسطینی اقدار کی توہین اور ان افراد کے ساتھ کھلی ناانصافی ہے جنہوں نے فلسطین کے لیے جانیں قربان کیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ مالی امداد کوئی خیرات نہیں بلکہ ان کا قومی اور قانونی حق ہے۔

اہل خانہ نے اس فیصلے کو فوری طور پر منسوخ کرنے، وظائف کی ادائیگی کو بغیر کسی شرط کے بحال کرنےاور اس فیصلے کے محرکات کی چھان بین کے لیے ایک آزاد قومی تحقیقاتی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔

فیصلہ ناقابل قبول ہے

سابق سربراہ برائے امورِ اسیران قدورہ فارس نے ایک مقامی ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے اس فیصلے کو ناانصافی قرار دیا اور کہا کہ اسے کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے عدالت سے رجوع کرنے کا عندیہ دیا، کیونکہ ان کے مطابق یہ اقدام قانونی طور پر بھی مشکوک ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ موجودہ قوانین اور ضوابط کے تحت اسیران، شہداء اور زخمیوں کے اہل خانہ کا حق تسلیم شدہ ہے اور اس میں مالی حالت کو بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔ انہوں نے "سماجی جانچ فارم” کو ناقابل قبول قرار دیا، جس میں ذاتی تفصیلات سے متعلق سوالات اس حد تک ہیں کہ گوشت کھانے کی ہفتہ وار تعداد تک پوچھی جاتی ہے۔

حماس کا ردعمل

اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” نے صدر محمود عباس کے اس فیصلے کی سخت مذمت کی ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ایک قومی جرم ہے اور شہداء و اسیران کے حقوق سے منہ موڑنے کے مترادف ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب پورا فلسطینی عوام اور مزاحمتی قوتیں ان کے حقوق کے تحفظ اور زندگی کو بہتر بنانے کے لیے سرگرم ہیں۔

حماس نے مطالبہ کیا کہ اس فیصلے کو فوری طور پر واپس لیا جائے اور قابض اسرائیل اور امریکی دباؤ کے سامنے ہتھیار نہ ڈالے جائیں۔

حماس نے مزید کہا کہ وہ لوگ جنہوں نے اپنی جانیں اور زندگی کے قیمتی سال فلسطین کے لیے قربان کیے، انہیں محض "سماجی کیسز” میں تبدیل کرنا ایک شرمناک عمل ہے۔ ان کی قربانیوں کا احترام کیا جانا چاہیے اور ان کے اہل خانہ کا تحفظ یقینی بنایا جانا چاہیے، نہ کہ انہیں تنہا چھوڑ دیا جائے۔

یاد رہے کہ 10 فروری کو صدر محمود عباس نے ایک نیا قانون جاری کیا تھا، جس کے تحت اسیران، شہداء اور زخمیوں کے اہل خانہ کو دی جانے والی مالی امداد کا اختیار "ادارہ برائے معاشی خود انحصاری” کو سونپ دیا گیا، جس کے بعد ملک بھر میں شدید عوامی ردعمل دیکھنے میں آیا۔

مختصر لنک:

کاپی