غزہ – مرکز اطلاعات فلسطین
مرکز برائے فلسطینی انسانی حقوق نے خبردار کیا ہے کہ قابض اسرائیل دانستہ طور پر سرطان کے مریضوں کو نہ صرف غزہ کے اندر علاج سے محروم کر رہا ہے بلکہ بیرونِ غزہ علاج کے لیے سفر پر بھی پابندیاں عائد کر کے انہیں موت کے حوالے کر رہا ہے۔
مرکز نے ہفتے کے روز جاری کردہ اپنی ایک تفصیلی رپورٹ میں کہا ہے کہ مارچ میں سرطان کے علاج کے لیے مخصوص "ترکی فرینڈشپ ہسپتال” کی تباہی کے بعد غزہ میں 12,500 سے زائد مریضوں کی امیدیں ٹوٹ گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ 91 فیصد مریضوں کو بیرونِ غزہ علاج کا حق بھی سلب کر لیا گیا، جس کے نتیجے میں گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران سینکڑوں افراد دم توڑ چکے ہیں۔
“قاتل انتظار” کے عنوان سے جاری کردہ اس رپورٹ میں مرکز نے واضح کیا کہ اس وقت تقریباً 2,700 ایسے سرطان کے مریض شدید خطرے سے دوچار ہیں جنہیں قابض اسرائیلی فوج علاج کے لیے غزہ سے باہر جانے کی اجازت نہیں دے رہی۔
مرکز نے کہا کہ سرطان کے تمام مریضوں کو نہ صرف علاج سے محروم کیا جا رہا ہے بلکہ ادویات کی فراہمی میں بھی 85 فیصد سے زائد قلت پیدا کر دی گئی ہے۔ یہ صورتحال واضح طور پر ان مریضوں اور دیگر عام شہریوں کو ناقابلِ برداشت زندگی گذارنے پر مجبور کرنے کی منظم کوشش ہے، جو ان کی جسمانی و ذہنی اذیت میں مسلسل اضافے کا سبب بن رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق قابض اسرائیلی افواج جان بوجھ کر سرطان کے مریضوں کو بے علاج چھوڑ رہی ہیں، جس کے باعث وہ نسل کشی کی براہِ راست شکار بن چکے ہیں۔ محض 1100 مریض جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے، بیرونِ غزہ علاج کے لیے سفر کر سکے ہیں۔ یہ سب کچھ اجتماعی سزا کے اس وحشیانہ رجحان کا حصہ ہے جو ہزاروں مریضوں کو علاج سے محروم کر رہا ہے، خاص طور پر وہ افراد جن کی جان بچانے کے لیے فوری سفر ناگزیر تھا۔
رپورٹ کے شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ قابض اسرائیلی فوج غزہ کے اندر علاج کی سہولیات ختم کرنے کے ساتھ ساتھ مریضوں کے سفر پر بھی سخت پابندیاں عائد کر کے انہیں آہستہ آہستہ مارنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ سرطان سے اموات کی تعداد ان مریضوں کے برابر ہو چکی ہے جو پچھلے کئی برس کے محاصرے کے دوران مرے تھے۔
رپورٹ میں اس امر پر بھی روشنی ڈالی کہ سرطان کے مریض انتہائی کٹھن حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ہزاروں مریض کئی بار بے گھر ہو چکے ہیں اور عارضی خیمہ بستیوں اور پناہ گاہوں میں رہنے پر مجبور ہیں، جو ان کی صحت کے لیے بالکل غیر موزوں ہیں۔ نفسیاتی دباؤ کے سبب متعدد مریضوں نے علاج کرانے سے مایوس ہو کر خود کو مرض کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے، خاص طور پر وہ مریض جو آپریشن کے بعد فالو اپ کی ضرورت رکھتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق قابض اسرائیلی فوج سرطان کے مریضوں کے خلاف ایک منظم جنگی جرم کی مرتکب ہو رہی ہے، جہاں سفر کے بے رحم طریقہ کار انہیں انتظار میں ہی مار دیتے ہیں۔ بعض اوقات جب مریض کو سکیورٹی منظوری مل بھی جائے تو انہیں اور ان کے ساتھیوں کو بغیر واپسی کی ضمانت کے غزہ سے نکالا جاتا ہے، جو بین الاقوامی انسانی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
یہ طریقہ دراصل زبردستی نقل مکانی اور غزہ کو خالی کرانے کی ایک دانستہ پالیسی ہے، جس میں علاج کے بنیادی حق کو بھی ایک سیاسی سودے بازی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ تمام اقدامات بین الاقوامی فوجداری عدالت کے قیام سے متعلق روم معاہدے کے تحت واضح جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔
مرکز برائے فلسطینی انسانی حقوق نے اپنی رپورٹ کے اختتام پر عالمی برادری سے فوری مداخلت کی اپیل کی ہے تاکہ ہزاروں مریضوں کی جانیں بچائی جا سکیں، اور قابض اسرائیل کی ان سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اس کا احتساب کیا جا سکے، بالخصوص ان مریضوں کے معاملے میں جنہیں دانستہ طور پر موت کے منہ میں دھکیلا جا رہا ہے۔