مرکز اطلاعات فلسطین
یورپی یونین کے سابق خارجہ و سکیورٹی پالیسی کے سربراہ جوزیپ بوریل نے ایک حیران کن بیان میں انکشاف کیا ہے کہ قابض اسرائیل یورپ سے فراہم کردہ بموں کی مدد سے غزہ میں منظم نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے۔
جمعے کے روز اسپین کے تاریخی مقام دیر یوستی میں یورپی کارلوس پنجم ایوارڈ وصول کرتے ہوئے بوریل نے خطاب میں کہا کہ "یورپ آج دوسری جنگِ عظیم کے بعد بدترین نسلی تطہیر کا مشاہدہ کر رہا ہے”. ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کو مٹا کر وہاں سیاحتی منصوبہ قائم کرنے کا خواب، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اُس مجوزہ اسکیم کا حصہ ہے، جس کے تحت فلسطینیوں کو پڑوسی ممالک میں بے دخل کر کے غزہ کو بین الاقوامی سیاحت کا مرکز بنانے کی سازش کی گئی۔
بوریل نے دوٹوک الفاظ میں کہاکہ "غزہ میں جو ہو رہا ہے وہ نسل کشی ہے”۔ انہوں نے اس حقیقت پر افسوس کا اظہار کیا کہ "غزہ پر برسنے والے بموں کا نصف یورپ سے فراہم کیا جاتا ہے، جبکہ یورپی یونین مکمل طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہی ہے”۔
یورپی نوجوانوں کو خبردار کرتے ہوئے بوریل نے کہا کہ اگر یورپ نے مالی و عسکری اتحاد کی طرف فوری پیش قدمی نہ کی تو وہ اپنی تہذیب کے انہدام کا سامنا کرے گا ۔ ایک ایسا دنیا جسے "ٹرمپ جیسے فوضی حکمرانوں اور پوتین جیسے آمر کنٹرول کرتے ہیں”۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج یورپ کا اصل چیلنج اندرونی امن نہیں، بلکہ دنیا سے اپنے تعلقات کو سنبھالنے کا طریقہ ہے۔ بوریل نے کہاکہ "یورپ کو بیرونی جھٹکوں کو برداشت کرنے کا ہنر سیکھنا ہوگا”۔
واضح رہے کہ امریکہ اور قابض اسرائیل اب بھی اس منصوبے پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ غزہ کے فلسطینیوں کو ہمسایہ ممالک میں جبری ہجرت پر مجبور کیا جائے۔ جبکہ مصر کی پیش کردہ ایک پانچ سالہ منصوبہ جسے عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم نے مارچ میں منظور کیا غزہ کی تعمیر نو پر مرکوز ہے اور کسی بھی قسم کے جبری انخلا کو مسترد کرتا ہے۔ اس منصوبے کی لاگت 53 ارب ڈالر کے قریب ہے۔
قابض اسرائیل نے امریکی پشت پناہی میں 7 اکتوبر 2023ء سے اب تک غزہ میں جو قتل عام برپا کیا ہے۔ اس میں اب تک 1,72,000 سے زائد فلسطینی شہید و زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے، جبکہ 11,000 سے زائد افراد تاحال لاپتا ہیں۔