نیویارک – مرکز اطلاعات فلسطین
اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر برائےانسانی امور "اوچا” نے ایک بار پھر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ غزہ کے 70 فیصد فلسطینی باشندے یا تو ان علاقوں میں مقیم ہیں جہاں قابض اسرائیلی افواج موجود ہیں، یا وہ جبری انخلاء کے احکامات کی زد میں ہیں، یا دونوں خطرات کا سامنا کر رہے ہیں۔
"اوچا” نے ہفتے کے روز پلیٹ فارم "ایکس” پر جاری کردہ اپنے بیان میں واضح کیا کہ فلسطینیوں کی جانیں غزہ میں ایک مکمل اور مسلسل اسرائیلی محاصرے کے باعث خطرے میں ہیں، جو اب تیسرے مہینے میں داخل ہو چکا ہے۔ یہ مسلسل محاصرہ اس نسل کشی کا حصہ ہے جو قابض اسرائیل گزشتہ ڈیڑھ سال سے جاری رکھے ہوئے ہے۔
"اوچا” کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ اور اس کے انسانی شراکت دار جیسے ہی اسرائیلی محاصرہ اٹھایا جائے غزہ میں امداد کی فراہمی کو تیز کرنے کے لیے مکمل تیار ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق اسرائیلی فوج کی جانب سے امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹیں اور شہریوں کو جبری طور پر بے دخل کرنے کا عمل نہ صرف انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ صورتحال ایک شدید انسانی بحران میں تبدیل ہو چکی ہے۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کے ترجمان جیمس ایلڈر نے بھی غزہ کی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے انسانی امداد کے لیے جو نئی "منصوبہ بندی” پیش کی گئی ہے، وہ بچوں اور خاندانوں کی تکالیف کو مزید بڑھانے کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے۔ اس منصوبے کے تحت فیس ریکگنیشن ٹیکنالوجی کو امداد حاصل کرنے کے لیے شرط بنایا گیا ہے، جو انسانی اصولوں کے منافی ہے۔
ایلڈر نے کہا کہ اس وقت غزہ میں صرف بم اور گولہ بارود داخل ہو رہے ہیں، جب کہ بچوں کی زندگی بچانے والی بنیادی اشیاء کی رسائی پر مکمل پابندی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "یہ اخلاقی دیوالیہ پن کی بدترین مثال ہے، اور اس بے حسی کی قیمت پوری دنیا کو چکانی پڑے گی۔”
انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ منصوبہ صرف 60 ٹرکوں کو روزانہ غزہ میں داخلے کی اجازت دیتا ہے، جو کہ جنگ بندی کے دوران داخل ہونے والی مقدار کا صرف 10 فیصد ہے۔ یہ مقدار دو ملین سے زائد کی آبادی، جن میں نصف تعداد بچوں کی ہے، کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہرگز کافی نہیں۔