واشنگٹن – مرکز اطلاعات فلسطین
جامعہ کولمبیا نے فلسطین کے حق میں آواز بلند کرنے والے 65 طلبہ کی تعلیمی سرگرمیاں معطل کر دی ہیں۔ یہ فیصلہ بدھ کے روز جامعہ کی مرکزی لائبریری میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں شرکت کرنے والے طلبہ کے خلاف کیا گیا، جو غزہ میں جاری نسل کشی کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کر رہے تھے۔
امریکی اخبار "وال اسٹریٹ جرنل” نے جامعہ کے ایک عہدیدار کے حوالے سے بتایا کہ معطل کیے گئے طلبہ اب نہ تو تعلیمی سال کے اختتامی امتحانات دے سکیں گے اور نہ ہی جامعہ کی حدود میں داخل ہو سکیں گے۔البتہ انہیں ہاسٹل تک رسائی کی اجازت ہوگی سالِ آخر کے طلبہ کو بھی گریجویشن کی تقریب میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔
جامعہ کولمبیا نے مزید 33 افراد کو جامعہ میں داخلے سے روک دیا ہے، جن میں دیگر جامعات کے طلبہ اور ماضی میں کولمبیا سے فارغ التحصیل افراد شامل ہیں، جو احتجاج میں شریک ہوئے تھے۔
اخبار کے مطابق یہ اقدام اس وقت سامنے آیا جب جامعہ کولمبیا اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے درمیان وفاقی فنڈنگ اور جامعہ کی خودمختاری سے متعلق مذاکرات جاری تھے۔
چند روز قبل امریکی ریاست نیویارک کی پولیس نے فلسطین کی حمایت میں جاری احتجاجی کیمپ کو زبردستی ختم کرنے کے لیے جامعہ کولمبیا کے کیمپس پر دھاوا بول دیا اور درجنوں مظاہرین کو گرفتار کر لیا۔
خبر رساں ادارے "رائٹرز” کے مطابق احتجاجی مظاہرین نے جامعہ کی مرکزی لائبریری کی مطالعہ گاہ میں میزوں پر چڑھ کر ڈھول پیٹے، فلسطین کے حق میں نعرے لگائے اور پلے کارڈز اٹھا کر نسل کشی کے خلاف آواز بلند کی۔
رائیٹرز نے اسے گزشتہ برس اسرائیل کی غزہ پر جنگ کے بعد شروع ہونے والی طلبہ تحریک کے تناظر میں جامعہ کولمبیا کے احاطے میں ہونے والا سب سے بڑا مظاہرہ قرار دیا ہے۔
دوسری جانب بنجمن نیتن یاھو کی حکومت کی جانب سے غزہ میں جاری نسل کشی کے خلاف ملک بھر کی جامعات میں بڑھتے ہوئے احتجاج نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو مجبور کیا ہے کہ وہ نہ صرف جامعہ کولمبیا بلکہ دیگر تعلیمی اداروں پر بھی دباؤ بڑھائے تاکہ اسرائیل کی حمایت میں کسی قسم کی مزاحمت کو روکا جا سکے۔