مرکز اطلاعات فلسطین
اقوام متحدہ کی مختلف ایجنسیوں نے شدید خبردار کیا ہے کہ غزہ میں انسانی امداد کو زبردستی کی نقل مکانی کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔ ان اداروں کا کہنا ہے کہ قابض اسرائیل کی جانب سے جاری محاصرہ، اجتماعی نسل کشی اور بگڑتی انسانی صورتحال کے دوران امداد کو ایک "چال” کے طور پر استعمال کرنا انسانی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال "یونیسف” کے ترجمان جیمز ایلڈر نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل کی طرف سے انسانی برادری کو پیش کی جانے والی منصوبہ بندی بچوں اور خاندانوں کی تکالیف میں مزید اضافہ کرے گی۔ انہوں نے اس منصوبے کو بنیادی انسانی اقدار کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ چہرے کی شناخت جیسی ٹیکنالوجی کو امداد حاصل کرنے کی شرط بنانا اخلاقی زوال کی عکاسی ہے۔
ایلڈر کا کہنا تھا کہ اس وقت غزہ میں صرف بم گرائے جا رہے ہیں، جبکہ وہ تمام اشیاء جن سے ایک بچہ زندہ رہ سکتا ہے ان پر مکمل پابندی عائد ہے۔ انہوں نے اس صورتحال کو "گہری اخلاقی گراوٹ” قرار دیا اور خبردار کیا کہ دنیا اس بے حسی کی بھاری قیمت ادا کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی منصوبہ ان کمزور طبقات کو مکمل طور پر نظرانداز کرتا ہے جو فوجی علاقوں تک پہنچنے کی سکت نہیں رکھتے۔ یوں یہ منصوبہ لوگوں کو نقل مکانی اور موت کے درمیان ایک ناقابل قبول انتخاب کے دہانے پر لے آتا ہے۔
ایلڈر کے مطابق اسرائیل کی اس منصوبہ بندی کے تحت یومیہ صرف 60 امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی جا رہی ہے، جو جنگ بندی کے دوران داخل ہونے والی امداد کا صرف 10 فیصد ہے۔ یہ مقدار دو ملین سے زائد کی آبادی، جن میں نصف سے زیادہ بچے ہیں، کے لیے بالکل ناکافی ہے۔
انہوں نے چہرے کی شناخت جیسی ٹیکنالوجی کے استعمال پر شدید تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد سکیورٹی نہیں بلکہ جاسوسی اور عسکری اہداف حاصل کرنا ہے، جو کہ انسانی اصولوں سے صریح انحراف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے بجائے سب سے مؤثر اور عملی حل یہ ہے کہ محاصرہ ختم کیا جائے، امداد کی راہ میں رکاوٹیں دور کی جائیں اور جانیں بچائی جائیں۔
اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی "انروا” کی میڈیا ڈائریکٹر جولیٹ توما نے کہا کہ غزہ میں کوئی جگہ محفوظ نہیں، جہاں فلسطینی باشندے جا سکیں۔ انہوں نے موجودہ حالات کو "انسانیت سے محرومی کا منظم عمل” قرار دیا اور کہا کہ دنیا کے سامنے کھلی آنکھوں سے نشر ہونے والے ان جرائم کو دانستہ نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ غزہ میں خوراک ختم ہو چکی ہے، اور راشن کے لیے قطاریں اب ناپید ہو چکی ہیں۔ خود اقوام متحدہ کے عملے کے افراد بھی وزن کم کر رہے ہیں کیونکہ وہ بھی فاقہ کشی کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔
توما نے واضح کیا کہ انروا کو غزہ میں کسی بھی دوسرے ادارے سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ادارہ 10,000 سے زائد مقامی اہلکاروں پر مشتمل ہے، جو خطرات کے باوجود بچی کھچی امداد کی ترسیل اور پناہ گاہوں کے انتظام میں مصروف ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اونروا کے پاس 3,000 سے زائد امدادی ٹرک غزہ کے باہر موجود ہیں، جن کی بروقت ترسیل نہ ہونے کی صورت میں یہ قیمتی امداد ضائع ہو سکتی ہے۔ انہوں نے معابر کھولنے اور محاصرہ فوری ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ترجمان ڈاکٹر مارگریٹ ہیرس نے اس تاثر کی نفی کی کہ غزہ میں داخل ہونے والی امداد کو کہیں اور منتقل کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ امداد کو داخل ہی نہیں ہونے دیا جا رہا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ طبی سامان تیزی سے ختم ہو رہا ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد میں روزافزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کے مطابق غزہ میں 10,500 مریض ایسے ہیں جنہیں فوری طور پر ہسپتالوں سے باہر منتقل کرنا ضروری ہے، جن میں 4,000 بچے بھی شامل ہیں، مگر 18 مارچ سے اب تک صرف 122 مریضوں کو ہی نکالا جا سکا ہے۔