غزہ – مرکز اطلاعات فلسطین
“مجھے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، حساس اعضا پر تلاشی کے بہانے مارا گیا، ہم مکمل تنہائی میں ہیں، دن کا پتہ ہے نہ رات کا، ہمیں اپنی ہی ماؤں کو گالیاں دینے پر مجبور کیا جاتا ہے، لرزہ خیز تشدد معمول بن چکا ہے، میری انگلیاں توڑ دی گئیں، کئی کئی روز تک تاریک کوٹھڑیوں میں بھوکا اور پیاسا رکھا جاتا ہے” یہ الفاظ غزہ کے اسیر (و.ن) کے،جو اسرائیلی مظالم کے گہرے اندھیروں میں دبے سچ کو اجاگر کرتے ہیں۔
اس رپورٹ میں ’رکیفت‘ نامی ایک بدنام زمانہ صہیونی ٹارچر سیل اور عقوبت خانے میں قیدیوں کے ساتھ برتے جانے والے ناروا سلوک پر بات کی گئی ہے۔ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ان قیدیوں کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔
اوپر بیان کردہ الفاظ ایک کہانی نہیں بلکہ ان سیکڑوں مظلوم فلسطینی اسیران کی زبانی بیان ہونے والی وہ ہولناک داستان ہے، جو قابض اسرائیل کی زیرزمین اذیت گاہ “رکیفت” میں قید کیے گئےہر فلسطینی کی بپتا ہے۔ انسانی حقوق کے اداروں نے زیرزمین قائم اس عقوبت خانے میں ہونے والے مظالم کو "انسانیت کے خلاف جرائم” قرار دیا ہے۔ یہ مقام "نیٹسان الرملہ” جیل کے نیچے واقع ہے اور یہاں کے حالات کی ہولناکی کا پہلا مشاہدہ حالیہ دنوں میں وکلاء اور قانونی ماہرین نے کیا تو وہ بھی ان مظالم کو دیکھ کر کانپ کر رہ گئے۔
اسرائیل کا زیرزمین عقوبت خانہ رکیفت
فلسطینی اسیران کے امور کے سرکاری کمیشن اور کلب برائے فلسطینی اسیران نے "رکیفت” میں قید غزہ کے قیدیوں کی پہلی باضابطہ قانونی ملاقات کے بعد چشم کشا حقائق بیان کیے۔ اس زیرزمین قید خانے میں قیدی مکمل تاریکی میں رکھے جاتے ہیں۔ وہ وہاں سورج دیکھ سکتے اور نہ نماز ادا کرنے دی جاتی ہے اور نہ ہی بات چیت کی اجازت ہوتی ہے۔بس تاریکی ہے، تشدد ہے، چیخیں، سسکیاں اور آہیں ہیں۔ ہر کمرے میں تین قیدی بند ہوتے ہیں، جن میں سے ایک فرش پر سوتا ہے۔ "فورہ” یعنی کال کوٹھڑی سے تھودری دیر باہر نکالنے کی اجازت دو دن بعد جاتی ہے، مگر ہاتھ بندھے ہوتے ہیں۔اس دوران بھی ذلت آمیز سلوک کیا جاتا ہے۔
تفتیش، تشدد، اور تذلیل کا لا متناہی سلسلہ
اسیر (س.ج) نے بتایا کہ دسمبر 2023 ءمیں گرفتاری کے بعد مسلسل 6 دن "ڈسکو” اور "بامبرز” نامی اذیتی طریقوں سے تفتیش کی گئی، جن میں بلند آواز موسیقی کے ساتھ ہاتھ باندھ کر بری طرح مارا پیٹا جاتا ہے اور قیدی کو پیشاب و پاخانے کے لیے صرف ایک حفاضہ (ڈایپر) دیا جاتا ہے۔ 45 دن عسقلان جیل، 85 دن المسکوبیہ اور بعدازاں رکیفت میں قید رکھا گیا۔ خوراک نہایت قلیل، پانی آدھا گلاس روزانہ اور ٹوائلٹ پیپر تین دن میں صرف ایک رول دیا جاتا ہے۔
جسمانی اذیت ، طبی غفلت: قیدی زندہ لاشیں
ایک دوسرے قیدی (خ.د) نے بتایا کہ عسقلان میں 30 دن کے دوران اسے کئی بار تفتیشی تشدد کا سامنا کرنا پڑا، زمین پر گرا کر مارا گیا، انگلیاں توڑنے کی پالیسی اختیار کی گئی اور آج وہ جلدی بیماری "جرب” میں مبتلا ہے۔ دیگر اسیران کی طرح اس کو بھی ہاتھ باندھ کر اذیت دی جاتی ہے۔ تشدد سے سینے میں شدید تکلیف کی شکایت کرنے پر مزید مارا پیٹا گیا۔
دل دہلا دینے والے مناظر اور مسلسل اذیت
اسیر (ع.غ) نے انکشاف کیا کہ گرفتاری کے وقت وہ زخمی تھے، مگر کسی قسم کا علاج نہیں کیا گیا۔ وہ شدید بخار میں مبتلا رہے، دل کی بیماری کے باعث کئی بار بیہوش ہوئے، مگر قابض فوج صرف اتنا جاننے پر اکتفا کرتی کہ وہ زندہ ہیں یا نہیں۔ ابتدائی دنوں میں انہیں کپڑے اور کمبل تک میسر نہ تھے، اور شدید سردی میں "برکس” میں رکھا گیا۔ 15 دن مسلسل ہاتھ بندھ کر اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر رکھا گیا۔ رکیفت میں ہر کمرے میں کیمرے لگے ہیں، عبادت سے روکا جاتا ہے، باہر نکالنے کے دوران بے رحمی سے مارا جاتا ہے، اور گالم گلوچ ،سب وشتم و تذلیل معمول کی بات ہے۔
زیرزمین قید خانہ قیدیوں کو عذاب میں رکھنے کا مقام
اسیر (و.ن) نے بتایا کہ ان پر تشدد کے دوران اسکی انگلی توڑ دی گئی، جو کہ قابض اسرائیلی جیل انتظامیہ کی طرف سے اب ایک”سزا” بن چکی ہے۔ قیدیوں کو فرش پر گھٹنوں کے بل بٹھا کر رکھا جاتا ہے، کپڑے پرانے اور پھٹے ہوتے ہیں۔ اندرونی لباس کی سہولت نہیں، اور مسلسل تشدد و توہین کا سامنا رہتا ہے۔ سورج کا کوئی تصور نہیں۔ دن رات کی تمیز صرف اس وقت ہو پاتی ہے جب صبح کے وقت فرش اور کمبل کھینچ لیے جاتے ہیں۔
رکیفت اور دیگر اسرائیلی عقوبت خانے: اذیت کے اڈے
فلسطینی اداروں کے مطابق رکیفت – الرملہ، سديہ تيمان، عناتوت، عوفر اور منشہ جیسے مقامات کو قابض اسرائیل نے خاص طور پر غزہ اور مغربی کنارے کے اسیران کو جسمانی اور ذہنی اذیت دینے کے لیے قائم یا دوبارہ فعال کیا ہے۔ ان میں رکیفت سب سے زیادہ خوفناک اور مظالم کا مرکز ہے۔
قابض اسرائیل نے اپریل 2025ء تک صرف ان 1747 غزہ کے باشندوں کو "غیر قانونی جنگجو” قرار دے کر جیلوں میں قید رکھا ہے جنہیں جیل سسٹم میں شامل کیا گیا ہے، جبکہ درجنوں اب بھی فوجی کیمپوں میں غائب ہیں۔