رام اللہ – مرکز اطلاعات فلسطین
قابض اسرائیلی فوج نے جمعرات کے روز سینیر فلسطینی صحافی علی السمودی کو چھ ماہ کے لیے انتظامی قید میں ڈال دیا ہے۔ غرب اردن کے شمالی شہر جنین سے تعلق رکھنے والے سمودی کو دس روز قبل گرفتار کیا گیا تھا۔انہیں بغیر کسی فردِ جرم کے چھ ماہ کے لیے انتظامی حراست میں ڈال دیا ہے۔
علی السمودی کے بیٹے محمد السمودی نے تصدیق کی کہ اُن کے والد کے وکیل نے انہیں بتایا ہے کہ عدالت میں پیشی اور مختصر حراست کے بعد اب انہیں انتظامی حراست میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ منگل کو انہیں چھ دن کے ریمانڈ پر رکھا گیا تھا، لیکن آج مجد جیل انتظامیہ کی جانب سے اچانک یہ اطلاع دی گئی کہ علی السمودی کو چھ ماہ کے لیے بغیر مقدمے کے قید کر دیا گیا ہے۔
علی السمودی متعدد دائمی بیماریوں میں مبتلا ہیں جن میں شوگر اور بلند فشار خون شامل ہیں۔ ان کی صحت کو مزید خطرہ ان پُرانے زخموں سے بھی ہے، جو انہیں گزشتہ 30 سال میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ کے دوران صحافتی کوریج کے دوران لگے۔ ان کے بیٹے کے مطابق وہ اب تک قابض فوج کی فائرنگ کا 11 مرتبہ نشانہ بن چکے ہیں۔
قابض اسرائیلی حکام نہ صرف انہیں ادویات فراہم کرنے سے انکار کر رہے ہیں بلکہ ان کی صحت کے حوالے سے اہل خانہ کو شدید تشویش لاحق ہے کہ قید کے دوران ان کی حالت مزید بگڑ سکتی ہے۔
ادھر فلسطینی اسیران کے امور کی کمیٹی اور فلسطینی اسیران کلب نے ایک مشترکہ بیان میں زور دیا ہے کہ اسرائیلی انٹیلی جنس نے 58 سالہ صحافی علی السمودی کے خلاف چھ ماہ کے انتظامی حراست کا حکم جاری کیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد قابض اسرائیل کے زیرحراست بغیر مقدمہ قید صحافیوں کی تعداد 20 ہو گئی ہے، جبکہ مجموعی طور پر 50 مرد اور خواتین صحافی قابض اسرائیل کی جیلوں میں قید ہیں۔
ان میں چھ صحافیوں کو 7 اکتوبر 2023ء کو غزہ پر مسلط کردہ نسل کش جنگ سے پہلے ہی گرفتار کیا گیا تھا۔
بیان میں کہا گیا کہ علی السمودی کو انتظامی حراست میں منتقل کرنا دراصل اس منظم اسرائیلی پالیسی کا حصہ ہے جس کے ذریعے صحافیوں کو خاموش کرایا جا رہا ہے۔ یہ پالیسی خاص طور پر جنگ کے بعد مزید سنگین ہو گئی ہے اور اب اسے اسرائیلی جرم کے ایک بڑے باب کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
فلسطینی اداروں نے اسرائیل کو صحافی علی السمودی کی زندگی اور صحت کی خرابی کی تمام تر ذمہ داری کاذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بدنام زمانہ مجد جیل میں قیدیوں کے ساتھ کیے جانے والے ناروا سلوک اور طبی لاپرواہی کے باعث کئی قیدی جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں، اور علی السمودی کی حالت بھی اسی خطرناک صورتحال کا شکار ہے۔