غزہ – مرکز اطلاعات فلسطین
عالمی باورچی خانہ (ورلڈ سنٹرل کچن) نے اعلان کیا ہے کہ وہ آج جمعرات 8 مئی 2025ء سے غزہ میں اپنا کام مکمل طور پر بند کر رہا ہے۔ اس فیصلے کی وجہ غذائی ذخائر کا مکمل طور پر ختم ہو جانا ہے، جو کہ گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے قابض اسرائیل کی جانب سے غزہ کے تمام زمینی راستے بند کرنے اور امداد کی فراہمی پر پابندی کا نتیجہ ہے۔
خوراک کی فراہمی کا یہ بندوبست ہزاروں متاثرین اور خاص طور پر خیمہ بستیوں میں رہنے والے مہاجرین کے لیے زندگی کی ایک آخری امید تھا، جنہیں روزانہ کی بنیاد پر یہاں سے تیار شدہ کھانا مہیا کیا جاتا تھا۔ اس بندش کے بعد انسانی بحران کی شدت کئی گنا بڑھ گئی ہے، کیونکہ پہلے ہی تمام علاقوں میں خوراک ناپید ہو چکی ہے۔
یہ المناک اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب غزہ کے لاکھوں شہری انتہائی ابتر حالات میں زندہ رہنے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ بنیادی ضروریات زندگی مکمل طور پر ختم ہو چکی ہیں، جب کہ محاصرے اور قتل عام کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
آج صبح اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی "اونروا” کے میڈیا مشیر عدنان ابو حسنہ نے خبردار کیا کہ "غزہ اب آفت کے بعد کی حالت میں داخل ہو چکا ہے”۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہزاروں خاندان شدید بھوک کا شکار ہیں اور کئی افراد کو دو یا تین دن بعد بمشکل ایک وقت کا کھانا نصیب ہو رہا ہے۔
عدنان ابو حسنہ نے انکشاف کیا کہ لاکھوں بچے غذائی قلت کا شکار ہو چکے ہیں، جن میں سے ہزاروں بچوں میں خون کی شدید کمی اور بدترین غذائی قلت کی علامات ظاہر ہو چکی ہیں۔
قابض اسرائیل کی افواج گزشتہ 67 دنوں سے غزہ پر مکمل محاصرہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اس نے انسانی، طبی اور غذائی امداد کی فراہمی کو مکمل طور پر روک رکھا ہے۔ یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جب 18 مارچ کو جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد دوبارہ وحشیانہ بمباری، قتل عام اور نسل کشی کی مہم تیزی سے جاری ہے۔
کراسنگ کی مسلسل بندش کے باعث خوراک کی قلت انتہائی خطرناک سطح پر پہنچ چکی ہے۔ وزارت صحت کے جاری کردہ بیان کے مطابق 91 فیصد غزہ کے شہری خوراک کی شدید کمی کا سامنا کر رہے ہیں۔
غزہ کے شہری اب پانی اور خوراک جیسی بنیادی ضروریات سے مکمل طور پر محروم ہو چکے ہیں۔ ہسپتالوں، پناہ گزین کیمپوں اور گھروں تک میں بھوک کا راج ہے۔ شہر کی بڑی بیکریوں نے بھی آٹا اور ایندھن کی عدم دستیابی کے باعث اپنے کام بند کر دیے ہیں، جب کہ پچیس لاکھ سے زائد افراد قحط، بمباری اور وحشیانہ نسل کشی کے سائے میں زندگی کے آخری کنارے پر کھڑے ہیں۔