پنج شنبه 08/می/2025

غزہ میں ںہ پھٹنے والے 3 ہزار اسرائیلی بم ایک نئی تباہی کا پیش خیمہ

بدھ 7-مئی-2025

غزہ – مرکز اطلاعات فلسطین

ایک اسرائیلی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ قابض اسرائیلی فوج نے غزہ پر جاری نسل کشی کے دوران جو بم برسائے، ان میں سے تقریباً 3 ہزار بم پھٹنے میں ناکام رہے۔ رپورٹ کے مطابق بعض مواقع پر یہ تعداد استعمال شدہ کل گولہ بارود کا 20 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

مقامی اور بین الاقوامی ادارے کئی بار خبردار کر چکے ہیں کہ غزہ کے مختلف علاقوں میں یہ غیر فعال بم جو اسرائیلی بمباری کے دوران پھٹ نہ سکے، شہری آبادی کے لیے مسلسل موت کا خطرہ بنے ہوئے ہیں۔

اسرائیلی اخبار "ہارٹز” کے معاشی ضمیمہ "دی مارکر” نے انکشاف کیا ہے کہ قابض فوج کی اندرونی تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ جن دھماکوں نے اسرائیلی ٹینکوں اور گاڑیوں کو نشانہ بنایا، ان میں سے کئی دراصل وہی اسرائیلی فضائی بم تھے جو پہلے حملوں میں پھٹ نہ سکے اور جنہیں القسام بریگیڈ نے دوبارہ قابلِ استعمال بنا لیا۔

رپورٹ کے مطابق 2024 کے اختتام تک قابض اسرائیلی فضائیہ غزہ پر 40 ہزار سے زائد فضائی حملے کر چکی تھی۔

2025ء کے آغاز تک اسرائیلی فضائیہ کو اچھی طرح علم تھا کہ تقریباً 3 ہزار فضائی بم پھٹنے میں ناکام رہے ہیں۔ ہر ایک ٹن وزنی بم کی قیمت 20 سے 30 ہزار ڈالر کے درمیان بتائی گئی ہے جو قابض اسرائیل نے غزہ پر برسائے۔

غیر فعال بموں سے دھماکہ خیز مواد نکالنے کا عمل

اسرائیلی ویب سائٹ کے مطابق ان غیر فعال بموں کو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ اسرائیل نے نادانستہ طور پر حماس کو ہزاروں ٹن دھماکہ خیز مواد منتقل کر دیا، جن کی مالیت کئی کروڑ ڈالر بنتی ہے، اور یہ سب کچھ گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران ہوا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ہتھیاروں کی شدید قلت کا سامنا کرنے والی حماس کے لیے یہ مواد نعمت ثابت ہوا ہے، جس کی مدد سے وہ ہزاروں بارودی سرنگیں اور دھماکہ خیز آلات تیار کر رہی ہے۔

یہ بم اب اسرائیلی فوج کے لیے بھی بڑا خطرہ بن چکے ہیں، جن سے غزہ میں کئی فوجی مارے جا چکے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اسرائیلی کابینہ کی جانب سے غزہ میں فوجی کارروائیوں میں توسیع کی منظوری کے بعد یہ خطرہ مزید سنگین ہو گیا ہے۔ ایک سکیورٹی ذرائع نے انکشاف کیا کہ زیادہ تر بم نہ پھٹنے کی وجہ تکنیکی خرابی ہے۔

قابض اسرائیل کی جانب سے غزہ پر گرائے گئے لاکھوں بموں نے اس کے فیوز کے ذخائر کو ختم کر دیا ہے — یعنی وہ آلہ جو بم میں دھماکہ کرتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسرائیلی فیوز بنانے والی کمپنی "آریٹ” کے حصص کی قیمت میں جنگ کے آغاز سے اب تک 2000 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے، جو صورتحال کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔

ناکاری بم بڑھتا ہوا خطرہ

فیوز کی قلت کے باعث قابض اسرائیل نے پرانے، غیر معیاری فیوز استعمال کرنا شروع کر دیے، جن میں بعض امریکہ سے فراہم کیے گئے اور کئی دہائیاں پرانے ہیں۔ نتیجتاً پہلے بم نہ پھٹنے کی شرح 2 فیصد تھی جو اب بعض بموں میں 20 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ القسام بریگیڈ کے لیے ان غیر فعال بموں کو دوبارہ قابل استعمال بنانا کوئی مشکل کام نہیں۔ کئی بار وہ بم کو کاٹ کر اس میں سے دھماکہ خیز مواد نکالتے ہیں اور دھات کے بڑے ڈبوں میں محفوظ کر کے انہیں بطور بارودی سرنگ استعمال کرتے ہیں۔

کبھی کبھار وہ ان بموں کو جوں کا توں رکھتے ہیں اور ایک دھاتی تار سے جوڑ کر دھماکے کے قابل بنا لیتے ہیں۔

جب دی مارکر نے قابض فوج سے اس پر ردِعمل لیا تو ترجمان نے دعویٰ کیا کہ غزہ میں پھینکے گئے دسیوں ہزار گولہ بارود میں سے صرف "چند” بم اپنے ہدف پر مکمل طور پر نہیں پھٹے۔

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ فوج غیر فعال بموں کی شناخت کر کے انہیں تباہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ قابض اسرائیل کے پھینکے گئے یہ غیر فعال بم اب بھی غزہ کے عام شہریوں کے لیے ایک بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ ان بموں کی وجہ سے اب تک کئی جانیں جا چکی ہیں، متعدد افراد ہمیشہ کے لیے معذور ہو چکے ہیں، اور مقامی آبادی کے پاس ان خطرات سے نمٹنے کا کوئی ذریعہ موجود نہیں۔

امریکہ کی حمایت سے قابض اسرائیل 7 اکتوبر 2023 ءسے جاری نسل کشی کے دوران اب تک 1 لاکھ 71 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید یا زخمی کر چکا ہے، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے، جب کہ 11 ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی