برسلز – مرکز اطلاعات فلسطین
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی نگران کایا کالاس نے واضح کیا ہے کہ غزہ کی صورتِ حال مزید اس نہج پر نہیں چل سکتی، اسے فوری طور پر تبدیل ہونا چاہیے۔
انہوں نے یہ بات قابض اسرائیل کے وزیر خارجہ گدعون ساعر سے ٹیلیفونک گفتگو میں کہی، جہاں انہوں نے زور دیا کہ غزہ میں انسانی امداد کا فوری بحال ہونا نہایت ضروری ہے اور اس عمل کو ہرگز سیاسی رنگ نہ دیا جائے۔
اقوامِ متحدہ اور فلسطینی نمائندہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں قابض اسرائیل پر الزام عائد کر چکے ہیں کہ وہ انسانی امداد کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کر رہا ہے اور دانستہ طور پر غزہ میں امداد کے داخلے کو روکے ہوئے ہے، جو بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔
قابض اسرائیل کی جانب سے غزہ پر مکمل قبضے کی منصوبہ بندی کے اعلان کے بعد، حماس نے بیان دیا ہے کہ اسرائیلی بھوک کی جنگ کے سائے میں جنگ بندی کے کسی بھی مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔
اسرائیلی فوج پہلے ہی اعلان کر چکی ہے کہ اس کی توسیعی مہم کی منظوری دی جا چکی ہے، جس کا مقصد تباہ حال غزہ پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا اور اس کے بیشتر شہریوں کو جبراً بے دخل کرنا ہے۔
منگل کے روز، اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ نے مقبوضہ مغربی کنارے میں "عوفرا” نامی غیر قانونی صیہونی بستی میں ایک تقریب کے دوران کہا کہ غزہ کی مکمل تباہی اس جنگ کا آخری نتیجہ ہوگی، جو ایک سال سے زائد عرصے سے جاری ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ جنگ کے بعد کا منصوبہ کیا ہے، تو اس انتہائی دائیں بازو کے وزیر نے کہا کہ غزہ کے شہریوں کو جنوبی غزہ کی جانب منتقل کر کے بڑی تعداد میں کسی تیسرے ملک کی طرف بھیج دیا جائے گا۔
2 مارچ 2025 سے قابض اسرائیل نے غزہ کے تمام بارڈر کراسنگ بند کر دیے ہیں، جس کے نتیجے میں خوراک، ادویات اور بنیادی ضروریات کی اشیاء کی فراہمی معطل ہو چکی ہے، اور انسانی بحران شدید تر ہو گیا ہے۔ یہ بات مختلف حکومتی، انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی رپورٹس میں تصدیق شدہ ہے۔
مارچ کے آغاز میں حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے اور جنگ بندی پر مشتمل معاہدے کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا تھا، جس کا آغاز 19 جنوری 2025ء کو ہوا۔ تاہم قابض اسرائیل نے دوسرے مرحلے سے انکار کرتے ہوئے 18 مارچ کو دوبارہ جنگ چھیڑ دی، جو اب جنگِ نسل کشی کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
امریکی حمایت کے سائے میں قابض اسرائیل 7 اکتوبر 2023ء سے اب تک غزہ میں نسل کشی کے بھیانک جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے، جس میں اب تک 1 لاکھ 70 ہزار سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے، جبکہ 11 ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہیں۔