چهارشنبه 07/می/2025

بھوک سے موت قبول مگر صہیونی غلامی منظور نہیں کریں گے:غزہ کےفاقہ کشوں کا آہنی عزم

بدھ 7-مئی-2025

غزہ ۔ مرکزاطلاعات فلسطین

غزہ—جہاں زندگی اب ایک تسلسل نہیں بلکہ مزاحمت کا نام ہے۔ یہاں کے لوگ روٹی کے ایک نوالے کے لیے ترستے ضرور ہیں، مگر اپنی غیرت پر آنچ آنے نہیں دیتے۔ قابض اسرائیل نے جب غزہ کو بھوک کے اندھے کنویں میں دھکیلنے کی کوشش کی، تو فلسطینیوں نے دنیا کو بتا دیا کہ وہ بھوکے مر سکتے ہیں، مگر جھک نہیں سکتے۔

"پانی میں شکر گھول کر بچوں کو کھلاتی ہوں، مگر دشمن کے آگے سفید جھنڈا کبھی نہیں اٹھاؤں گی”۔ ام محمد مشہدی کے یہ حوصلہ افزا الفاظ ایک ماں کے نہیں، پورے غزہ کی صدا ہے۔ بیت حانون سے بے دخل ہوکر الرمل میں پناہ لینے والی اس ماں کی زبان سے جو نکلتا ہے، وہ حوصلے، صبر اور عزت کی ایسی لغت ہے، جو تاریخ میں سنہری الفاظ سے لکھی جائے گی۔

انیس مہینے سے جاری بدترین محاصرہ، ہر گذرتے دن کے ساتھ غذا، ایندھن، دوا کی بندش اور ہسپتالوں کی بربادی، یہ سب فلسطینیوں کے حوصلے کو توڑنے میں ناکام رہا۔ اس ظلم نے انہیں جھکنے کے بجائے اور بھی سینہ تان کر کھڑا ہونا سکھایا۔ اب یہاں "شہدائے بمباری” کے ساتھ ساتھ "شہدائے بھوک” کا بھی ذکر ہے، جو عزت کی راہ میں جان دے گئے۔

درختوں کے پتے کھائے مگر دشمن کے سامنے نہیں جھکے

جب خوراک کی سپلائی روک دی گئی، جب فلاحی ادارے بے بس ہوگئے، تب غزہ کے لوگ فطرت سے لپٹ گئے۔ جبالیہ کے رہائشی ابو حسن مصبح بتاتے ہیں کہ”گھر میں ایک انجیر کا درخت تھا۔ اس کے پتے توڑے، پکائے، کھائے،بیمار ہو گئے، مگر پچھتاوا نہیں۔ اگر قابض اسرائیل کھانا دے کر ہمیں جھکانا چاہے، تو ہم بھوک قبول کریں گے”۔

الشفاء ہسپتال میں تڑپتے تین سالہ آدم ابو القمبز کی ماں کی آہیں سب کچھ کہہ دیتی ہیں۔ "دودھ اور وٹامن دانستہ روکے گئے، تاکہ ہمارے بچے کمزور ہوں، ہم گھٹنے ٹیک دیں مگر ہم نے اپنے بچوں کو سکھایا ہے کہ بھوک ذلت سے بہتر ہے”۔

روٹی کی قطار یا مزاحمت کی علامت؟

جب روٹی کی ایک طویل قطار میں کھڑے لوگوں پر بمباری ہوئی تب بھی وہ پیچھے نہیں ہٹے۔ ایک زندہ بچ جانے والا شخص کہتا ہےکہ "ہمیں معلوم تھا کہ آسمان سے موت تاک رہی ہے مگر ہم نکلے۔ عزت سے نوالہ مانگنا قبول ہے مگر دشمن کے سامنے ہاتھ پھیلانا ناممکن”۔

اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے غزہ کی صورتحال کو حالیہ تاریخ کا پہلا "مکمل طور پر مستند قحط” قرار دیا ہے، مگر عالمی ضمیر اب بھی بےحس ہے۔ کچھ ممالک تو اس ظالمانہ محاصرے میں بالواسطہ شریک ہیں جو یا تو مدد روک رہے ہیں یا اسرائیلی ظلم کا سیاسی جواز فراہم کر رہے ہیں۔

’جب خاموشی بھی جرم بن جائے‘

حقوقِ انسانی کے علمبردار صلاح عبد العاطی کہتے ہیں کہ "بین الاقوامی قانون کے مطابق بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنا جنگی جرم ہے مگر غزہ میں یہ جرم روز دہرایا جاتا ہے۔ جو عالمی برادری خاموش ہے، وہ اس جرم کی ساتھی ہے”۔

"میری مٹی میرا مقدر ہے”

نصیرات کیمپ کے نوجوان ابراہیم فرج اللہ کو مغربی کنارے سے نکلنے کی پیشکش ہوئی، مگر اُس نے انکار کر دیا: "یہی میری مٹی ہے، یہی میرا مقدر۔ بھوک منظور ہے، جلاوطنی نہیں”۔

یہی وہ جذبہ ہے جو آج غزہ کے ہر خیمے، ہر ماں، ہر بچے، ہر نوجوان کی آنکھوں میں جھلکتا ہے۔ یہاں مائیں اب صرف پالنے والی نہیں، بلکہ بھوک میں پکا کر کھلانے والی، دوا کے بغیر تیمار داری کرنے والی اور درد کی کلاس میں تدریس دینے والی بن چکی ہیں۔

غزہ کے لوگ چیخ چیخ کر دنیا سے کہہ رہے ہیں: "ہم بھوکے ضرور ہیں، کمزور نہیں۔ ہم مر سکتے ہیں، مگر جھکیں گے نہیں۔”

آج غزہ نہ صرف قابض اسرائیل کے چہرے سے نقاب اتار رہا ہے، بلکہ دنیا کو اس کے دوہرے معیار کا آئینہ بھی دکھا رہا ہے۔ اور اس آئینے میں ایک سوال لکھا ہے۔

کیا روٹی سے بڑھ کر عزت کا کوئی مول ہے؟
۔

مختصر لنک:

کاپی