صنعاء – مرکز اطلاعات فلسطین
قابض اسرائیلی فوج نے منگل کے روز یمن کے دارالحکومت صنعاء میں ایک بڑی جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے صنعاء بین الاقوامی ہوائی اڈے، عمران کے علاقے میں واقع سیمنٹ فیکٹری اور ایک مرکزی بجلی گھر پر بمباری کی۔ اس حملے سے ایک گھنٹہ قابض قبل اسرائیلی فوج نے شہریوں کو علاقے خالی کرنے کا حکم دیا تھا۔
قابض اسرائیلی فوج نے اپنے بیان میں کہاکہ "صنعاء ایئرپورٹ کے آس پاس موجود تمام افراد فوری طور پر یہ علاقہ چھوڑ دیں اور اپنے آس پاس موجود لوگوں کو بھی فوری انخلا کا مشورہ دیں”۔ یہ انتباہ حملے سے پہلے دیا گیا تاکہ حملے کے اثرات کو مزید وسیع کیا جا سکے۔
اسرائیلی بمباری سے ایک دن قبل مغربی یمن کے ساحلی شہر الحدیدہ میں بھی کئی مقامات کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان حملوں کے نتیجے میں اب تک ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 4 ہو گئی ہے جبکہ 39 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ یمنی وزارت صحت نے تصدیق کی ہے کہ پیر کے روز امریکی اسرائیلی بمباری میں الحدیدہ کی بندرگاہ پر ایک شہری شہید اور 4 زخمی ہوئے، جب کہ "باجل سیمنٹ فیکٹری” پر حملے میں مزید 3 افراد شہید اور 35 زخمی ہوئے۔
یہ اسرائیل کی جانب سے یمن پر پہلا حملہ نہیں بلکہ اتوار کے روز یمنی حوثی تحریک انصار اللہ نے بن گوریون ایئرپورٹ پر حملہ کیا تھا، جس میں 8 اسرائیلی زخمی ہوئے اور 12 غیر ملکی ایئرلائنز نے اسرائیل کے لیے پروازیں معطل کر دیں۔ اس حملے کے بعد انصار اللہ نے اسرائیل کے خلاف فضائی محاصرہ کا اعلان کیا اور کہا کہ اب اسرائیلی ایئرپورٹس، خاص طور پر اللد ایئرپورٹ کو بار بار نشانہ بنایا جائے گا۔
انصار اللہ کے عسکری ترجمان یحییٰ سریع نے اعلان کیا کہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے ردعمل میں اسرائیل کے خلاف کارروائیاں مزید بڑھائی جائیں گی۔ ساتھ ہی انہوں نے امریکہ پر بھی الزام لگایا کہ مارچ کے وسط سے اب تک امریکی افواج نے یمن پر 1300 فضائی اور بحری حملے کیے، جن میں سینکڑوں شہری جاں بحق یا زخمی ہوئے۔
اگرچہ امریکی فوج نے ان حملوں کا آغاز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے احکامات پر کیا، تاہم حوثی گروہ اب بھی بحیرہ احمر میں امریکی مفادات اور اسرائیلی اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں، اور اپنی کارروائیوں کو فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا حصہ قرار دیتے ہیں۔
واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023 سے قابض اسرائیل کو امریکی حمایت حاصل ہے، اور وہ غزہ میں ایک منظم نسل کشی میں مصروف ہے، جس میں اب تک 170,000 سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے، جبکہ 11,000 سے زائد افراد لاپتا ہیں۔