غزہ – مرکز اطلاعات فلسطین
اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے کہا ہے کہ قابض اسرائیل کی وزارتی سکیورٹی کونسل (کابنیٹ) کی جانب سے غزہ میں زمینی کارروائی کو توسیع دینے کی منظوری، غزہ میں موجود اسرائیلی قیدیوں کو دانستہ قربانی دینے کا کھلا اعلان ہے۔ یہ وہی ناکامی کا چکر ہے جسے اسرائیل اٹھارہ ماہ سے دہرا رہا ہے مگر اپنے کسی بھی اعلان کردہ مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
منگل کے روز جاری کردہ بیان میں حماس نے واضح کیا کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کو مطلوب اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کے بیانات اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ امریکہ کی مکمل پشت پناہی کے ساتھ غزہ کے بے گناہ شہریوں کے خلاف مزید جنگی جرائم کا عزم رکھتا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ فلسطینی عوام اور اس کی مزاحمت جو اپنے صبر و استقامت سے سابق اسرائیلی آرمی چیف ہرتسی ہاليفی اور اس کی مجرمانہ منصوبہ بندی کو ناکام بنا چکے ہیں وہ ایال زامیر جیسے نئے آرمی چیف کی دھمکیوں اور سازشوں سے ہرگز مرعوب نہیں ہوں گے۔ یہ ہماری سرزمین ہے اور ہم اس پر ڈٹے رہیں گے، چاہے قابض اسرائیل کا فاشسٹ ظلم جتنا بھی بڑھ جائے۔
حماس نے عرب و اسلامی ممالک، عالمی برادری، اقوام متحدہ اور اس کے اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ فاشسٹ قابض حکومت کو روکنے اور اس کی وحشیانہ کارروائیوں کے سدباب کے لیے فوری طور پر حرکت میں آئیں۔اسرائیلی ظالم لیڈروں کو عالمی عدالتوں میں انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے عملی اقدامات کریں۔
حماس نے عرب اورمسلمان ممالک کے حکمرانوں اور دنیا بھر کے عوام اور دنیا بھر کے حریت پسندوں سے بھی اپیل کی کہ وہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت روکنے کے لیے عوامی دباؤ کی مہم کو مزید منظم کریں اور فلسطینی قوم کے جائز حقِ آزادی، خود ارادیت اور قابض اسرائیل کےناجائز تسلط کے خاتمے کے لیے آواز بلند کریں۔
واضح رہے کہ اسرائیلی کابنیٹ نے پیر کے روز غزہ میں اپنی فوجی کارروائی کو مزید وسعت دینے کے فیصلے پر متفقہ منظوری دی۔ اسرائیلی چینل 13 کے مطابق، چیف آف اسٹاف ایال زامیر نے اس کارروائی کے نتیجے میں غزہ میں قیدیوں کی زندگیوں کو لاحق خطرات سے سیاسی قیادت کو آگاہ کیا۔ اس نے جنگ کے دو متضاد اہداف یعنی قیدیوں کی واپسی اور حماس کی شکست کے درمیان پائے جانے والے تضاد پر بھی سوال اٹھایا۔
دوسری جانب غزہ میں قید اسرائیلیوں کے اہلِ خانہ اور اپوزیشن رہنما یائیر لیپڈ سمیت کئی اسرائیلی شخصیات نے جنگ میں توسیع کے فیصلے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے زور دیا کہ قیدیوں کی رہائی کے لیے حماس سے تبادلےکا معاہدہ کیا جائے چاہے اس کی قیمت جنگ کا خاتمہ ہی کیوں نہ ہو۔