غزہ – مرکزِ اطلاعاتِ فلسطین
ایک ننھی سی جان، جو دنیا میں آئی تو دماغ سے خالی تھی۔ معصوم "ملک احمد القانوع” کی پیدائش نہ صرف انسانی المیے کا تازہ ترین باب ہے بلکہ یہ غزہ میں جاری اس خاموش نسل کشی کی ناقابلِ انکار شہادت ہے جو اسرائیلی جارحیت، امریکی پشت پناہی اور تباہ کن ہتھیاروں کے استعمال سے رچائی جا رہی ہے۔
ملک کی پیدائش شمالی غزہ کے "مستشفى العودة الأهلي” میں ہوئی۔ ڈاکٹر دم بخود تھے، اور اہلِ خانہ پر سکتہ طاری۔ ایسی پیدائش جس میں بچی کا دماغ ہی موجود نہ ہو، اور جسمانی بگاڑ اس حد تک ہو کہ اسے الفاظ میں بیان نہ کیا جاسکے۔ یہ منظر ایک عام طبی کیس نہیں بلکہ انسانیت کے ضمیر پر ضرب ہے۔
غزہ کی وزارتِ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر منیر البرش نے اس سانحے کی ویڈیو شواہد کے ساتھ ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ دو روزہ بچی "ملک” اُن صدمہ خیز کیسز میں سے ایک ہے جو ماں کے پیٹ میں ہی تشویشناک بگاڑ کا شکار ہو چکی تھیں۔
ڈاکٹر البرش نے خبردار کیا کہ جنگ زدہ علاقوں میں اس نوعیت کے کیسز میں اضافہ عام ہے اور ممکنہ طور پر یہ اسرائیل کی جانب سے استعمال کیے جانے والے ایسے تجرباتی اور مہلک ہتھیاروں کا نتیجہ ہیں جنہیں براہِ راست شہریوں، بالخصوص بچوں پر آزمایا جا رہا ہے۔
انہوں نے اس صورتحال کو عراق کی جنگ کے بعد پیدا ہونے والے حالات سے تشبیہ دی، جہاں امریکی بمباری کے بعد بچوں میں پیدائشی تخلیقی بگاڑ اور ، جسمانی معذوری اور تشویشناک طبی پیچیدگیاں عام ہو گئی تھیں۔ ڈاکٹر البرش نے عالمی برادری سے فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا تاکہ ان ہتھیاروں کی نوعیت اور ان کے اثرات کا مکمل جائزہ لیا جا سکے۔
اعداد و شمار کی دہلا دینے والے واقعات
دستیاب سرکاری اعداد و شمار اور میڈیکل رپورٹس کے مطابق صرف ناصر میڈیکل کمپلیکس میں جون، جولائی اور اگست 2024 ءکے دوران 172 ایسے نوزائیدہ بچے ریکارڈ کیے گئے جن میں مختلف پیدائشی عوارض پائے گئے، جن میں سے 20 فیصد بچوں کا انتقال ہو چکا ہے۔ شمالی غزہ میں ان کیسز میں نمایاں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے تاہم الشفاء ہسپتال کی تباہی اور طبی نظام کے انہدام کے باعث مکمل اور مصدقہ اعداد و شمار دستیاب نہیں۔
ڈاکٹر حاتم ظہیر جو ناصر میڈیکل کمپلیکس کے زچہ و بچہ یونٹ میں نوزائیدہ بچوں کے نگہبان یونٹ کے سربراہ ہیں انہوں نے تصدیق کی کہ ان کیسز میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، بالخصوص دل، جنسی اعضاء، اور نچلے جسمانی اعضا سے متعلقہ بگاڑ سب سے زیادہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
دھماکہ خیز مواد اور زہریلا مادہ
یورپی میڈٹیرین ہیومن رائٹس آبزرو یٹر کے سربراہ رامی عبدہ کے مطابق 7 اکتوبر 2023ء سے اب تک اسرائیلی فوج نے غزہ پر 70,000 ٹن بارودی مواد گرایا ہے، جس کے اثرات محض تباہی تک محدود نہیں بلکہ نسلوں کو برباد کرنے والی کیمیائی اور ماحولیاتی آفات کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔
عبدہ کے مطابق اگرچہ تشویشناک بگاڑ اور بمباری کے درمیان براہِ راست ربط قائم کرنے کے لیے سائنسی تحقیق درکار ہے، لیکن اسرائیل ایسے ماہرین کو غزہ میں داخل ہونے ہی نہیں دے رہا جو ان تعلقات کی آزاد تحقیق کر سکیں۔
مائیں خطرے میں
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے آبادی (UNFPA) کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں اس وقت 55,000 حاملہ خواتین موجود ہیں، جن میں 20 فیصد شدید غذائی قلت کا شکار ہیں، جبکہ آدھی خواتین ایسی ہیں جن کا حمل طبی طور پر "انتہائی خطرناک” قرار دیا جا چکا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ فروری اور مارچ 2025 کے دوران کم از کم 20 فیصد نوزائیدہ بچے یا تو قبل از وقت پیدا ہوئے، یا پیدائشی پیچیدگیوں، تشویشناک بگاڑ، یا غذائی کمی کا شکار ہیں۔
ننھی بچی "ملک القانوع” کی دماغ سے محروم پیدائش ایک لرزہ خیز اور چونکا دینے والا واقعہ ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ غزہ میں جو ہو رہا ہے، وہ صرف بمباری نہیں، بلکہ انسانی نسل کا تدریجی قتل ہے۔ یہ صرف ایک خاندان کا دکھ نہیں بلکہ یہ پوری انسانیت کا امتحان ہے۔