نیو یارک – مرکزاطلاعات فلسطین
فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیز نے قابض اسرائیل کی طرف سے غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی مسلسل بھوک مسلط کرنے کی پالیسی کی شدید مذمت کی ہے۔
انہوں نے ایکس‘ پلیٹ فارم پرایک بیان میں کہا کہ”کیوں: نسل کشی کے 19 مہینوں کے تشدد اور 60 دنوں کے دوران چاول کا ایک دانہ بھی غزہ میں داخل نہیں ہوا فلسطینیوں کو دنیا کے سامنے ایسا دکھایا جا رہا ہے جیسے سانس لینے کے لیے ہانپ رہے ہوں”۔
انہوں نے کہا کہ "غزہ کے لوگو، فلسطینیو! آج تمہاری بھوک ہمارے لیے باعث شرم ہے، اگر ہم اتنے بے حس، اتنے غیر فعال، اتنے خود غرض اور اتنے بدعنوان ہیں کہ ہم اسے فوری طور پر روک نہیں سکتے تو ہمیں تمہاری تکلیف نہیں دیکھنی چاہیے”۔
کیوں 19 ملین نسل کشی کے تشدد کے بعد اور غزہ میں چاول کے ایک دانے کے بغیر 60 دن تک فلسطینیوں کو دنیا کو "دکھایا” جانا پڑتا ہے جب وہ خوراک کے لیے اس طرح بھاگ رہے ہوں جیسے وہ ہوا کے لیے ہانپ رہے ہوں، گندی زمین پر پڑی کھانے کی آلودہ چیزیں اٹھا کر کھانے پر مجبور ہوں۔
قبل ازیں اقوام متحدہ کی عہدیدار نے کہا تھا کہ غزہ میں انسانی بحران "عالمی ضمیر کے لیے شرمناک” ہے۔انہوں نے خبردار کیا کہ شہریوں کو بھوک اور تباہی سے بچانے میں عالمی برادری کی مسلسل ناکامی کو برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کو پیش کی گئی ایک رپورٹ میں کہا کہ ناکہ بندی اور جاری فوجی کارروائیوں نے غزہ کو ایک "کھلی جیل” میں تبدیل کر دیا ہے جس کے مکین خوراک، ادویات اور پانی کی شدید قلت کا شکار ہیں۔
یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب ورلڈ فوڈ پروگرام نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں اس کے کھانے کا ذخیرہ ختم ہو گیا ہے۔
غزہ میں غزہ شہر کے مغرب میں واقع الرنتیسی ہسپتال میں غذائی قلت اور پانی کی کمی کے نتیجے میں آج ہفتے کو ننھی بچی جانان صالح السکافی کی موت کا اعلان کیا گیا۔