غزہ – مرکزاطلاعات فلسطین
ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز (ایم ایس ایف) میں طبی سرگرمیوں کے ڈائریکٹر ڈاکٹر احمد ابو وردہ نے کہا ہےکہ قابض اسرائیلی حکام کی جانب سے غزہ کی پٹی تک انسانی امداد کی ترسیل پر 60 دنوں سے زیادہ پابندی عائد کرنے سے پٹی میں تمام طبی سرگرمیاں روکے جانے کا خطرہ ہے۔
ابو وردہ جو اس وقت غزہ کی پٹی کے جنوب میں واقع خان یونس میں ناصر میڈیکل کمپلیکس میں کام کرتے ہیں نے وضاحت کی کہ پٹی میں طبی صورتحال "انتہائی ناگفتہ بہ” ہے، خاص طور پر جاری حملوں اور 7 اکتوبر 2023ءسے اسرائیلی ناکہ بندی کے دباؤ کی وجہ سے ہسپتالوں میں طبی خدمات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
انہوں نے انادولو ایجنسی کو بتایا کہ "غزہ کی صورتحال پوری جنگ کے دوران انتہائی گھمبیر رہی ہے لیکن اب یہ دن بہ دن بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ہمیں تقریباً دو ماہ سے کوئی امداد یا طبی سامان نہیں ملا ہے، جس سے تمام طبی سرگرمیوں اور ہسپتالوں کے بند ہونے کا خطرہ لاحق ہے‘‘۔
قابض صہیونی حکومت، انسانی حقوق اور بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق 2 مارچ سے اسرائیل نے غزہ کی پٹی کی گذرگاہوں کو خوراک، امداد، طبی امداد اور سامان کے داخلے کے لیے بند کر دیا ہے، جس سے فلسطینیوں کے لیے انسانی صورتحال میں نمایاں بگاڑ پیدا ہوا ہے۔
ڈاکٹر ابو وردہ نے زور دیا کہ کہ "بہت کم ہسپتال ہیں جو غزہ کی پٹی کے اندر مکمل خدمات فراہم کرتے ہیں۔ تقریبا تمام ہسپتال امداد، طبی سامان اور جراحی کے آلات کی شدید کمی کا شکار ہیں”۔
ابو وردہ نے کہا کہ "کراسنگ کی بندش کی وجہ سے ہمیں کوئی امداد نہیں مل رہی، جس سے تمام مریضوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ گئی ہیں۔ ہمارے کام کو خطرہ لاحق ہے اور ہم مناسب طبی خدمات فراہم کرنے سے قاصر ہیں”۔
ادویات کی شدید قلت
ابو وردہ نے بیان کیا کہ "غزہ میں صحت اور انسانی ہمدردی کے کارکنان مکمل طور پر بیرون ملک سے آنے والی سپلائی پر انحصار کرتے ہیں۔ بہت سی ادویات اور جراحی کے آلات "ختم ہونے لگے ہیں”۔
انہوں نے مزید کہاکہ "ہمارے پاس اپنے کام کے لیے ضروری کچھ آلات اور ادویات ختم ہونے لگی ہیں۔ یہ صورتحال طبی ٹیموں کے کام کو جو مریضوں کی مدد کے لیے شدت سے کوشش کر رہی ہیں کو اور بھی پیچیدہ اور مشکل بنا دیتی ہے”۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ "اگر حالات اسی طرح جاری رہے تو غزہ میں بہت سی سرگرمیاں بنیادی طور پر رک جائیں گی۔ نہ صرف ہمارے لیے بلکہ سب کے لیے کام کرنا مشکل ہوجائے گا کیونکہ ہر کوئی غزہ کے باہر سے آنے والی رسد پر انحصار کرتا ہے اور غزہ کی تقریباً 2.4 ملین افراد کی آبادی مکمل طور پر پٹی کے باہر سے آنے والی انسانی امداد پر منحصر ہے‘‘۔