مقبوضہ بیت المقدس – مرکزاطلاعات فلسطین
اسلامی تحریک مزاحمت’حماس‘ نے سوئٹزرلینڈ کی جانب سے تحریک پر پابندی لگانے کے فیصلے کو فلسطینی عوام کے خلاف ایک قابل مذمت تعصب پر مبنی، ان کے جائز نصب العین کے حصول اور ناجائز قبضے کے خلاف ان کی مسلمہ مزاحمت خاص طور پر غزہ کی پٹی میں نسل کشی کی جنگ کی روشنی میں صہیونی ریاست کی طرف داری پرمبنی اقدام قرار دیا۔
جمعرات کوایک بیان میں حماس نے کہا کہ "اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کو افسوس ہے کہ تحریک پر پابندی کا اقدام ایک ایسے ملک کی جانب سے کیا گیا ہے جو تاریخی طور پر اپنے غیر جانبدارانہ موقف اور بین الاقوامی انسانی قانون کے دفاع کے لیے جانا جاتا ہے”۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ بین الاقوامی برادری کی سیاسی، انسانی اور اخلاقی ذمہ داریاں خاص طور پر سوئٹزرلینڈ کی فلسطینی عوام کو محدود کرنے کے بجائے جنیوا کنونشن سمیت بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے فوری اقدام کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ "دہشت گرد نیتن یاہو حکومت” روزانہ کی بنیاد پر بین الاقوامی ذمہ داریوں اور معاہدوں کی خلاف ورزی کرتی ہے۔
حماس نے سوئس حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس "غیر منصفانہ” اور ظالمانہ فیصلے کو واپس لے، انصاف کے لیے کھڑا ہو اور فلسطینی عوام کو قابض ریاست کے مظالم سے نجات دلائے۔
۔
بدھ کو سوئس حکومت نے حماس اور اس سے وابستہ گروپوں پر پابندی لگانے کا اعلان کیا۔ نیا قانون 15 مئی سے نافذ ہونے والا ہے۔
یہ اقدام ہمسایہ ملک جرمنی میں اسی طرح کے اقدام کے بعد ہے، جس نے 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل کی جانب سے نسل کشی شروع کرنے کے ایک ماہ سے بھی کم عرصے کے بعد حماس پر پابندی عائد کر دی تھی۔
سوئس پابندی حماس کی تمام سرگرمیوں اور حمایت پر پابندی عائد کرتی ہے، اور حکام کو داخلے پر پابندی اور ملک بدری لگانے کی اجازت دیتی ہے۔ حکام نے کہا کہ اس اقدام کا مقصد حماس کو سوئٹزرلینڈ کو مالیاتی مرکز کے طور پر استعمال کرنے سے روکنا ہے۔